لذتِ گریہ ہے ہر یاد کی سرشاری میں
اشک سحری میں عزا داریاں افطاری میں
اڑتی پھرتی ہیں کتابیں مرے وجدان کے ساتھ
تہ بہ تہ خواب سجے رہتے ہیں الماری میں
اے مرے دوست تری ایک نظر کی خاطر
میں نے اک عمر گزاری ہے اداکاری میں
مری بنیاد میں شامل ہے لہو صدیوں کا
سوچ لو وقت لگے گا مری مسماری میں
ایسے بازارِ خریدار میں بیٹھے ہیں جہاں
وقت آسانی سے مل جاتا ہے دشواری میں
حسن کی ایک جھلک دیکھ کے اس بار بھی کیا
دل سلگتا ہوا ڈھل جائے گا چنگاری میں
ہم بچھڑ جائیں گے اس عید سے پہلے فرخؔ
وہ یہی سوچ کے مصروف ہیں تیاری میں
عدنان فرخؔ