تیرے جلوے ہیں موج زن ہر سو
ذرے، ذرے میں ہے ترا جادو
باغ ہستی میں جتنی اشیاء ہیں
کب کسی شئے میں ہے تری خوبو
تجھ کو دیکھیں تو ہوش کھو بیٹھیں
یہ پری چہرگانِ سنبل مُو
تیرے جلوؤں کی تابناکی سے
دم بخود ہے مری زبانِ غلو
تیری توصیف کیا کرے کوئی
پیکرِ حسن بے مثال ہے تو
تیرے دیدار حسن سے پہلے
شوق کو چاہئے نظر کا وضو
تیری آنکھوں کی یاد میگوں سے
مست رہتا ہوں بے خمارِ سُبو
چاند کو شب میں دیکھ کر تنہا
چین آتا نہیں، کسی پہلو
شمع نے یہ کہا پتنگوں سے
عشق پاتا ہے بعد مرگ علو
کوئی پوچھے تو کیا کہوں کاوشؔ
میری آنکھوں میں کیوں ہے دل کا لہو
کاوشؔ عمر