جو بات جتائی ہے جتانے کی نہیں تھی
پھر بات ہماری تھی زمانے کی نہیں تھی
ہر بات ہر اک شخص سمجھ ہی نہیں سکتا
ہر نظم سرِ بزم سنانے کی نہیں تھی
نقشہ بھی تھا، رستہ بھی تھا، ہمت بھی تھی لیکن
کنجی ہی مرے پاس خزانے کی نہیں تھی
کیا جانیے کیا بات تھی اس شخص کے دل میں
یہ بات تو کچھ ایسی رلانے کی نہیں تھی
آج اس کی صدا پر کوئی لبیک نہ بولا
وہ جس کی نہیں ایک زمانے کی ”نہیں“ تھی
جو زخم لگایا ہے لگانے کا نہیں تھا
جو تیغ چلائی ہے چلانے کی نہیں تھی
جو دل میں بسایا ہے بسانے کا نہیں تھا
جو آگ لگائی ہے لگانے کی نہیں تھی
کرنے سے کوئی کام بھی ہو سکتا ہے لیکن
نیت ہی مری اس کو بھلانے کی نہیں تھی
جاتے ہوئے اس نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا
خُو میری بھی آواز لگانے کی نہیں تھی
امتیاز انجم