طبّی ماہرین کے مطابق نماز ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کیلئے ایک بہترین علاج ہے، تحقیق کے مطابق وضو کے دوران جب چہرہ، کہنیوں تک ہاتھ اور پاؤں دھوتے ہیں اور سر کا مسح کرتے ہیں تو رگوں میں دوڑنے والے خون کی رفتار نارمل ہوجاتی ہے، جس سے انسان سکون محسوس کرتا ہے اور اعصابی نظام پر بے حد اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دماغ کو آرام ملتا ہے
پروفیسر ڈاکٹر حافظ اعجاز احمد
ورلڈ ہائپر ٹینشن لیگ کے زیرِاہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال 17 مئی کو ”ورلڈ ہائپر ٹینشن ڈے“ منایا جاتا ہے، تاکہ ہر سطح تک بلند فشارِ خون (ہائی بلڈ پریشر) سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات عام کی جاسکیں۔ اِمسال کا تھیم ہے۔ یعنی ”بلڈ پریشر کی درست جانچ، کنٹرول اور طویل زندگی“۔ رواں برس کم اور درمیانی آمدن والے ممالک پر خاص توجّہ دی جا رہی ہے، تاکہ بلڈ پریشر جانچنے کے درست طریقوں کے بارے میں آگاہی دی جا سکے۔ دراصل یہ مرض ”خاموش قاتل“ بھی کہلاتا ہے کہ عام طور پر اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دُنیا بَھر میں 100 کروڑ سے زائد افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2025ء تک یہ تعداد 150 کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ یعنی اگلے تین سال میں 29 فیصد افراد اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں 18 فیصد افراد بلند فشارِ خون کا شکار ہیں جبکہ اس مرض میں مبتلا ہر تیسرے فرد میں چالیس سال کی عمر کے بعد دیگر بیماریوں کے لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مرض سے عدم آگاہی کے باعث قریباً 50 فیصد میں مرض تشخیص ہی نہیں ہوپاتا جبکہ تشخیص کے بعد ساڑھے 12 فیصد ہی اس کا علاج کرواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں سالانہ ایک لاکھ مریضوں میں سے ساڑھے 22 ہزار مریض انتقال کر جاتے ہیں۔ ایک قدرتی نظام کے تحت ہمارے جسم میں دِل دھڑکنے سے خون گردش کرتا ہے، جس کے نتیجے میں مطلوب توانائی اور آکسیجن مہیا ہوتی ہے۔ خون گردش کے دوران رگوں (شریانوں) کی دیواروں پر جو دباؤ ڈالتا ہے، اسے طبّی اصطلاح میں بلڈ پریشر کہتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے دِل کو یہ پریشر زیادہ بنانا پڑے، تو یہ ہائی بلڈ پریشر کہلاتا ہے اور ہائی بلڈ پریشر کے اس مرض کو ہائپر ٹینشن سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کا ایک مخصوص حد میں رہنا بقائے حیات کے لئے ضروری ہے۔ عام طور پر ایک صحت مند فرد کا بلڈ پریشر 120/80 سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ بلڈ پریشر جب متواتر اِس خاص حد سے زیادہ رہے، تو اِس کا علاج کروانا ضروری ہوتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہائی بلڈ پریشر ایک بیماری ہے جبکہ لو بلڈ پریشر مرض نہیں، اس لئے باقاعدہ طور پر اس کا کوئی علاج بھی نہیں۔ البتہ بعض عوارض مثلاً دست یا بہت زیادہ پسینہ آنے کے نتیجے میں بلڈ پریشر وقتی طور پر کم ہوجاتا ہے، تب اس کے علاج کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ خون کا دباؤ جانچنے کا واحد طریقہئ کار اس کی پیمائش کرنا ہے۔ اس کی پیمائش کے لئے پہلے مرکری (پارے) والا آلہ، بلڈ پریشر مانیٹر بہتر تصوّر کیا جاتا تھا، لیکن اب گیج یا ڈیجیٹل آلے زیادہ بہتر نتائج کے حامل ہیں۔ ویسے تو ہائی بلڈ پریشر لاحق ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں۔ تاہم، موٹاپا، کھانے میں نمک کی زائد مقدار کا استعمال، جسمانی سرگرمیاں بہت کم ہونا، الکحل کا استعمال، تمباکو نوشی اور ذیابطیس وجہ بن سکتے ہیں جبکہ بعض کیسز میں یہ عارضہ موروثی بھی ہوتا ہے، تو بالعموم عمر بڑھنے کے ساتھ اس کی شکایت عام ہوجاتی ہے۔ دراصل عمر میں اضافے کے ساتھ جسم کے مختلف حصّوں میں خون پہنچانے والی رگوں کی لچک کم ہو کر وہ قدرے سخت ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کھانے پینے میں بے احتیاطی بھی سبب بن سکتی ہے۔ متعدّد افراد صبح ناشتہ نہیں کرتے جبکہ دوپہر اور رات کے اوقات میں خوب پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ہم تو صرف دو وقت کا کھانا کھاتے ہیں، پھر پتا نہیں کیوں وزن بڑھ رہا ہے۔
یاد رکھئے، زائد وزن سے جو طبّی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں، اُن میں سے ایک ہائی بلڈ پریشر بھی ہے۔ 10 فیصد مریضوں میں ہائپر ٹینشن لاحق ہونے کا کوئی نہ کوئی طبّی سبب ضرور ہوتا ہے، جسے ثانوی ہائپر ٹینشن کہا جاتا ہے۔ ان طبّی وجوہ میں گْردے کے امراض، گْردوں کو خون کی رسد میں رکاوٹ اور بعض ہارمونل مسائل شامل ہیں۔ بہرحال ہائپر ٹینشن کا بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر گردوں سے اہم تعلق ہے۔ اس کے علاوہ بعض کیسز میں ہائی کولیسٹرول یا تھائی رائیڈز بھی باعث بنتے ہیں۔ اگر خاندان کا کوئی فرد پہلے سے ہائی بلڈپریشر کا شکار ہو، تو پھر دیگر اہلِ خانہ کو بھی سال میں کم از کم ایک بار اپنا معائنہ ضرور کروانا چاہئے۔ بیشتر افراد میں ہائپر ٹینشن کی کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور وہ بظاہر ہر لحاظ سے صحت مند اور تندرست دکھائی دیتے ہیں لیکن اندر ہی اندر یہ مرض اپنی جڑیں مضبوط کررہا ہوتا ہے۔ تاہم جن افراد میں علامات ظاہر ہوتی ہیں، وہ معمولی سَردرد، تھکن، آنکھوں میں دھندلاہٹ، چکر آنے، متلی اور سانس لینے میں تکلیف محسوس ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں شدید عارضے کی صورت میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں شدید سَردرد، بے خوابی، ذہنی پریشانی، الجھن، سانس کے مسائل اور ناک سے خون آنا شامل ہیں۔ ہائپر ٹینشن کے علاوہ بھی بعض جسمانی تکالیف کے نتیجے میں بلڈپریشر وقتی طور پر بڑھ سکتا ہے۔ یہ جسم کا وقتی ردِّعمل ہوتا ہے، اس دوران بڑھے ہوئے بلڈپریشر کو ہائپر ٹینشن نہیں کہا جاتا۔ دو سے چار ہفتوں تک خون کے دباؤ کی مسلسل جانچ ہی سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مریض کا بلڈ پریشر وقتی تکلیف سے بڑھا ہے یا پھر ہائپر ٹینشن کا عارضہ لاحق ہے۔ دِن بھر کے معمولات کے دوران بلڈ پریشر کی سطح میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ دورانِ ورزش یا کسی ذہنی دباؤ کے باعث بھی خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے لیکن جب آپ سکون کی حالت میں ہوں یا سو رہے ہوں تو اس کی سطح گر جاتی ہے۔ عام طور پر جب بلڈ پریشر چیک کروایا جارہا ہو، تو یہ خودبخود بڑھ جاتا ہے۔ طبّی اصطلاح میں اسے فائٹ کوٹ بلڈ پریشر کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں گھر میں بلڈ پریشر مانیٹر رکھیں اور ریڈنگز لیتے رہیں، تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کے خطرے سے دوچار نہ ہوں۔ اگر ہائپر ٹینشن کا بروقت اور مناسب علاج نہ کروایا جائے تو کئی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ جیسے خون پمپ کرنے کی صلاحیت بتدریج کمزور پڑ سکتی ہے۔ گردے کمزور یا فیل ہوسکتے ہیں جبکہ یہ بینائی کی خرابی، آنکھوں کے امراض اور فالج کی صورت میں مستقل معذوری اور خون کی رگیں متاثر کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ نیز پیٹ اور سینے سے گزرنے والی مرکزی شریان بھی پھیل کر پھٹ سکتی ہے اور اس سے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ دِل کی شریانیں بند ہوسکتی ہیں، جو دِل کا دورہ پڑنے کا سبب ہیں۔
بلند فشارِ خون کے مریض عام طور پر خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے، لیکن یہ مرض خاموشی سے دِل کی شریانیں اور دیگر جسمانی اعضاء متاثر کررہا ہوتا ہے۔ یہ عارضہ گردوں کے لئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اگر گردوں کو خون فراہم کرنے والی رگیں متاثر ہوجائیں تو یہ مرض مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے، تو دماغ کو خون فراہم کرنے والی رگیں بند ہونے کے نتیجے میں فالج کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ خون کا دباؤ بڑھنے کی صورت میں پیروں کی خون کی رگیں سکڑ جاتی ہیں اور ان میں خون کا بہاؤ مشکل ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً چلنے پِھرنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے اور مستقل معذوری بھی ہوسکتی ہے۔ خون کا دباؤ معمول پر رکھنے کے لئے صحت مند سرگرمیاں اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ وزن میں اضافے کے ساتھ بلڈپریشر بھی بڑھتا ہے جبکہ قد کی مناسبت سے وزن، بلڈ پریشر نارمل سطح پر رکھتا ہے۔ وزن کو قد کے مطابق رکھنے کے لئے ورزش یا جسمانی سرگرمیاں لازم ہیں، لہٰذا ہفتے میں چار سے پانچ دِن تک تقریباً 30 سے 60 منٹ ورزش کی جائے، اس سے بلڈپریشر 4 سے 9 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ یوں بھی ورزش سے لوگ جسمانی طور پر تندرست اور متحرک رہتے ہیں جبکہ سست روی ہائپر ٹینشن میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھا دیتی ہے۔ یاد رکھئے دِل کی عمدہ صحت کے لئے ضروری ہے کہ دِل کی دھڑکن اور خون کا دباؤ معمول کے مطابق رہے اور طرزِزندگی مثبت ہو۔ باقاعدہ ورزش کے ساتھ متوازن اور صحت بخش غذائیں استعمال کی جائیں۔ ایسی غذائیں جن میں سوڈیم کی مقدار کم ہو، بلڈپریشر معمول میں رکھنے میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ہوٹلز کے اور گھر میں فریزڈ کئے گئے کھانوں کا استعمال کم سے کم کریں کیونکہ زیادہ عرصے تک محفوظ رکھے گئے کھانوں میں کاربوہائیڈرٹیس اور سوڈیم کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ فاسٹ فوڈز اور پروسیسڈ کھانوں کے استعمال سے اجتناب برتیں کہ ان میں نمک زائد مقدار میں شامل ہوتا ہے۔ بلڈ پریشر نارمل رکھنے اور وزن کم کرنے کے لئے روغنی غذاؤں سے پرہیز ضروری ہے۔ نیز کھانا ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ اس ضمن میں بہتر تو یہی ہے کہ غذائی چارٹ مرتّب کرلیا جائے، جس میں روزمرّہ کی خوراک اس طرح ترتیب دیں کہ پھل، سبزیوں سمیت سوڈیم کی کم سے کم مقدار، کم چکنائی اور پوٹاشیم کی حامل اشیاء شامل ہوں۔ کیلا پوٹاشیم سے بھرپور غذا ہے۔ دِن بھر میں صرف دو سے تین کیلے کھانے سے ہائی بلڈپریشر 10 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں، لائیکو پین جو موثر ترین اینٹی آکسیڈینٹ ہے، اگر روزانہ کی غذا میں اس کا 25 ملی گرام حصّہ شامل کرلیا جائے تو ہائی بلڈپریشر اور کولیسٹرول کی سطح 10 فیصد تک کم کی جاسکتی ہے۔ واضح رہے، لائیکو پین ٹماٹروں میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ چقندر کا جوس بھی بے حد فائدہ مند ہے، اس میں موجود نائٹریٹس چوبیس گھنٹوں میں بلڈپریشر کم کر دیتے ہیں۔ ہر ہفتے ایک کپ اسٹرابیریز یا بلیو بیریز استعمال کرنے سے بھی ہائی بلڈپریشر کے مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دہی، مچھلی، آلو، پالک اور لوبیا وغیرہ کے استعمال سے بھی بلند فشارِ خون کم کرنے میں مدد ملتی ہے کہ ان سب میں سوڈیم کم مقدار میں پایا جاتا ہے۔ مرغی، مچھلی، تازہ پھل سبزیاں اور ریشے دار غذائیں استعمال کریں، کھانوں اور مشروبات وغیرہ میں کوشش کریں کہ نمک کا استعمال نہ ہو۔ جسمانی اعضاء کی بہتر کارکردگی کے لئے متوازن غذا کا استعمال ضروری ہے جبکہ وزن پر بھی قابو رہے۔ وزن میں کمی کی وجہ سے بلڈپریشر نارمل رکھنے کے لئے استعمال کی جانے والی ادویہ زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ نمک کی زائد مقدار کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے جسم میں مائع موجود رہے گا اور اس کے نتیجے میں بلڈ پریشر کی سطح میں اضافہ ہوگا۔ بیشتر افراد عام معاملات میں بھی بہت زیادہ غصّے اور تناؤ کا شکار رہتے ہیں اور یہ عادت انہیں بلڈ پریشر کی اونچی سطح تک لے جاتی ہے۔ خود کو ہر وقت پُرسکون رکھنے کی عادت ڈالیں، تاکہ آپ کا بلڈ پریشر بھی نارمل رہے۔ اسی طرح کیفین کے حامل مشروبات کے استعمال سے بھی بلڈپریشر اچانک بڑھ جاتا ہے، جو انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس کے علاوہ ہر وقت ذہنی دباؤ میں رہنے والے افراد بھی ہائی بلڈپریشر کی بیماری سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ بعض افراد اپنے دفتری امور میں روزانہ تقریباً پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے تک مسلسل مصروف رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے، جو ہائی بلڈپریشر کا باعث بنتا ہے۔ تمباکو نوشی سے ہر صورت اجتناب برتیں کہ اس سے دِل کے امراض لاحق ہونے کے امکانات تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کی نسبت دو گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ہائپر ٹینشن کی حتمی تشخیص کے بعد اگر بلڈ پریشر بہت زیادہ نہیں ہے تو ابتدا میں اس کا علاج ادویہ کے بغیر کیا جاتا ہے، جس کے لئے صرف تین تدابیر اختیار کی جاتی ہیں، جو بالعموم نصف سے زیادہ مریضوں کو ادویہ سے بے نیاز کر دیتی ہیں۔ نمک کم یا سِرے سے استعمال نہ کرنا، وزن قابو میں رکھنا اور باقاعدگی سے ورزش کرنا۔ اگر ان تینوں تدابیر پر تین چار ماہ تک مستقل مزاجی سے عمل کرنے کے باوجود بلڈ پریشر کم نہ ہو، تو پھر ادویہ تجویز کی جاتی ہیں اور جب ایک بار ادویہ کا استعمال شروع کردیا جائے، تو پھر ان کا استعمال تاعمر کیا جاتا ہے۔ سوائے اس کے کہ آپ کا ڈاکٹر ان ادویہ کی خوارک کم یا سِرے سے بند کردے یا کچھ اور تجویز کرے۔ ادویہ استعمال کرنے کے ساتھ نمک سے پرہیز، وزن کم کرنے کی کوشش اور ورزش کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے علاوہ نشہ آور اشیاء کے استعمال سے اجتناب بھی بلڈپریشر کے مریض کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ یہ بُری علّت امراضِ قلب کا ایک بڑا سبب ہے۔ اگر ہائپرٹینشن کا علاج نہ کروایا جائے تو دِل کے دورے اور فالج کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں جبکہ علاج کروا کے کئی بڑے امراض سے بچا جاسکتا ہے۔ اگر مریض ہائی بلڈ پریشر کی دوا استعمال کررہے ہوں اور مرض بھی کنٹرول میں ہو، تو پھر روزانہ بلڈ پریشر چیک کرنے کی ضرورت نہیں۔ چند ماہ کے بعد چیک کروانا یا کرنا کافی ہے۔ بیشتر معالجین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بلڈپریشر 120/80 یا اس سے کم قابلِ قبول ہے۔ اگر آپ ذیابطیس یا دل کے عارضے میں مبتلا ہوں تو پھر ریڈنگ اس سے کم، زیادہ بہتر ہے۔ طبّی ماہرین کے مطابق نماز ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کے لئے ایک بہترین علاج ہے۔ تحقیق کے مطابق وضو کے دوران جب چہرہ، کہنیوں تک ہاتھ اور پاؤں دھوتے ہیں اور سر کا مسح کرتے ہیں تو رگوں میں دوڑنے والے خون کی رفتار نارمل ہو جاتی ہے، جس سے انسان سکون محسوس کرتا ہے اور اعصابی نظام پر بے حد اچھے اثرات مرتّب ہوتے ہیں اور دماغ کو آرام ملتا ہے۔