روس، یوکرائن کی جنگ نے ثابت کردیا ہے کہ ہزاروں جوہری وار ہیڈز اور میزائل مل کر بھی روائتی سلاحِ جنگ کا بدل نہیں بن سکتے، جوہری جنگ کا مطلب دُنیا کی آخری جنگ ہے لہٰذا اب دُنیا کے اکثر ممالک جہاں جوہری اور میزائلی قوت کو بطور ڈراوا (Detterence) ڈویلپ کررہے ہیں وہاں وہ اپنی روائتی قوتِ حرب (یعنی غیرجوہری جنگ) میں اضافہ کررہے ہیں
لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان
جوں جوں وقت گزرتا ہے، پرانے عسکری مقولوں کی صداقت قصہئ پارینہ بنتی جا رہی ہے۔ مثلاً جنگ عظیم دوم کے بعد کے برسوں میں یہ مقولہ ملٹری ہسٹری کی بہت سی کتابوں میں دیکھا جاتا تھا کہ اگر امریکا کو اگست 1945ء میں یہ خبر ہوتی کہ جاپان کسی بھی قسم کا جوہری تجربہ کرنے کا پروگرام رکھتا ہے تو 6 اگست اور پھر 9 اگست کو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی جوہری بم نہ گرائے جاتے۔ امریکا کو جاپان کی طرف سے جوابی ردعمل کا خوف ایسا نہ کرنے دیتا۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکا 1945ء کے بعد چار سال تک بِلاشرکت غیرے جوہری قوت کا تاجدار بنا رہا۔ لیکن جب 1949ء میں روس نے بھی کامیاب جوہری تجربہ کرلیا تو امریکا، کورین وار (1951-53) میں اپنے جنرل میکارتھر کے بار بار مطالبے کے باوجود بھی شمالی کوریا (اور چین) پر جوہری بم گرانے سے گریزاں رہا۔
یہ عسکری مقولہ کئی برسوں تک قابلِ اعتبار تسلیم کیا جاتا رہا تاآنکہ مئی 1998ء میں انڈیا اور پاکستان نے جوہری دھماکے کر دیئے…… اب دوسرا عسکری مقولہ منظر عام پر آیا کہ جن ممالک کے پاس جوہری وارہیڈز ہوں وہ جوہری جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ لیکن پاکستان کے جنرل پرویز مشرف نے مئی 1999ء میں کارگل وار چھیڑ کر اس مقولے کو بھی غلط ثابت کردیا۔ ہم جانتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان دونوں جوہری قوتیں بن چکنے کے باوجود بھی جنگ سے باز نہ آئے۔ جولائی 1999ء میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان کو امریکا بھاگنا پڑا اور اس کارگل جنگ کا خاتمہ کروانا پڑا وگرنہ عین ممکن تھا کہ یہ جنگ جو متنازع ایل او سی پر لڑی جا رہی تھی پِھسل کر بین الاقوامی پاک۔ بھارت سرحد تک آ جاتی۔ لیکن اس وقت بھی یہ تاویل گھڑی گئی کہ صرف جوہری بم کا حامل ہونا ہی جنگ کی روک کا باعث نہیں ہوسکتا۔ اس وقت بھی پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس میزائل یعنی جوہری وار ہیڈز کو حریف پر پھینکنے کی صلاحیت نہیں تھی اس لئے ایٹم یا ہائیڈروجن بم کو سرحد پر لے جا کر دکھانا، مرض کا علاج نہ تھا۔ علاج یہ تھا کہ بم کو کسی دور دراز مقام سے لانچ کرکے دشمن کے مطلوبہ ٹارگٹ پر گرایا جائے۔ اس طرح دونوں ملکوں (پاکستان اور بھارت) کے درمیان میزائلوں کی پروڈکشن اور ڈویلپمنٹ کی ابتدا ہوئی جو ابھی تک جاری ہے۔ ان میزائلوں کی رینج اور ان کی اہلیتِ وزن برداری کا مقابلہ جاری ہے۔ یہ مقابلہ صرف انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہی نہیں بلکہ دُنیا کی دو بڑی قوتوں (امریکا اور روس) کے درمیان بھی جاری ہے۔
اب ایک تیسرا عسکری مقولہ بھی منظرِ عام پر لایا گیا جو یہ تھا کہ جن دو ممالک کے پاس جوہری اور میزائلی قوتیں موجود ہوں وہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی حماقت نہیں کرسکتے…… اسے باہمی یقینی بربادی (ایم اے ڈی) کا نام دیا گیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری اور میزائلی قوتیں بن گئیں تو دونوں کے درمیان کسی باہمی جنگ کا خطرہ ”ٹل“ گیا۔ لیکن یہ جوہری ڈراوا (Detternce) بھی اس وقت نقش برآب ثابت ہوا جب انڈیا نے پاک بھارت ایل او سی عبور کرکے رات کی تاریکی میں بالاکوٹ پر حملہ کردیا۔ جدید وار ٹیکنالوجی میں رات کی تاریکی اور دن کا اجالا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لیکن انڈین ایئرفورس نے، پاکستان پر یہ حملہ کیا تھا، اس حملے کے مالہ و ماعلیہ پر قارئین بہت کچھ پڑھ اور دیکھ چکے ہیں۔ اس کے بعد اگلے روز دن کے اجالے میں انڈیا کا فضائی حملہ اور ابھی نندن کی گرفتاری اور رہائی سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ یعنی اب اس تیسرے عسکری مقولے کا بطلان بھی ہوچکا ہے کہ دو جوہری و میزائلی قوتوں کے حامل ملکوں کے درمیان جنگ کا کوئی امکان نہیں۔ ابھی نندن والے سانحے کو یاد کیجئے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تیسری جنگ (1965ء اور 1971ء کے بعد) بھی شروع ہوسکتی تھی لیکن پاکستان نے مصلحت سے کام لیا اور اس تنازعے کو کسی بڑی جنگ میں تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ اس کی ”دریا دلی“ کی دلیل ہے…… مصلحت کوشی سے دریا دلی اور باہمی یقینی بربادی تک کوئی بڑا فاصلہ نہیں رہ جاتا…… سوال یہ ہے کہ آیا جس ملک کے پاس جوہری اور میزائلی اہلیت ہو، کیا وہ اہلیت اس ملک کی علاقائی سلامتی کی ضامن ہوسکتی ہے؟
آیئے اس سناریو کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اور اسے دُنیا کی دو سپرپاورز تک لے جاتے ہیں۔ یوکرائن ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے اور اس کے پاس کوئی جوہری ہتھیار نہیں۔ یہ تاحال نیٹو کا ممبر بھی نہیں۔ 24 فروری 2022ء کو روس نے یوکرائن پر جس حملے کا آغاز کیا تھا وہ ابھی تک جاری ہے۔ روس اس جنگ کو ”اسپیشل آپریشن“ کا نام دیتا ہے۔ 1991ء تک یوکرائن، روس (سوویت یونین) کی ایک ماتحت ریاست تھی۔ اس کی عسکری اہلیت اور پیداوار پر قارئین بہت کچھ پڑھ چکے ہیں۔ اس کو شمال، مغرب اور جنوب مغرب سے نیٹو ممالک نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ یوکرائن نے امریکا اور یورپی ممالک کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ وہ جس جگہ ان کے ملک میں آئیں، سو بسم اللہ…… اور یوکرائنی فوج کی اس کلیدی اور پروفیشنل صلاحیت کو سوویت دور کی صلاحیت سے نکال کر امریکی صلاحیت سے ”مالا مال“ کردیں۔ یوکرائن اور روس کی شمالی سرحد تو بیلا روس سے ملتی ہے جو روس کا حلیف ہے اور مشرقی اور جنوب مشرقی سمت (ماریو پول وغیرہ) پر روس کا قبضہ ہو چکا ہے، روس 24 فروری سے لے کر اب تک یوکرائن کے بڑے بڑے شہروں پر یا تو قبضہ کرچکا ہے یا ان کی اہلیتِ حرب و ضرب کو تقریباً ناکارہ بنا چکا ہے۔ روس نے امریکا اور نیٹو کو دھمکی دے رکھی ہے کہ خبردار اگر کسی نے یوکرائنی فضاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کی یا زمینی عسکری مستقروں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو وہ آنکھ نکال دی جائے گی۔
یوکرائن کا مشرقی بندرگاہی شہر ماریو پول روس کے تسلط میں آچکا ہے۔ وہاں یوکرائن کا (بلکہ یورپ کا) سب سے بڑا فولادی کارخانہ ہے جس کا گھیراؤ کیا جا چکا ہے اور جس میں محصور 2500 باغی کارکنوں کو روس نے الٹی میٹم دے رکھا ہے کہ یا ہتھیار ڈال دو یا بھوکوں مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اس کا راشن پانی بند کیا جا چکا ہے۔ کوئی ہی دن جاتا ہے جب یہ ماریو پول کی اسٹیل مل روس کی جھولی میں آگرے گی اور نیٹو و امریکا کچھ بھی نہیں کرسکیں گے…… اس سے پہلے روس یوکرائن (بلکہ یورپ کے) سب سے بڑے ایٹمی بجلی گھر پر بھی قبضہ کرچکا ہے۔
امریکا اور نیٹو ممالک، یوکرائن کی دن بدن تباہی کے مناظر دیکھتے ہیں لیکن جوابی وار کی جرأت نہیں کرتے۔ زیادہ سے زیادہ چوری چھپے جنوب کے زمینی راستے سے یوکرائنی باغیوں کو اسلحہ و بارود بھیج رہے ہیں۔ روس جان بوجھ کر یوکرائنی شہروں، قصبوں اور دوسرے عسکری اہداف کو نشانہ نہیں بناتا۔ وہ دنیا کو دکھا رہا ہے کہ نیٹو کے حمایت یافتہ ملک کی آبادیوں اور اس کی نام نہاد فوج کا کس طرح بتدریج صفایا کیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا اس موضوع پر دن رات انگریزی جاننے والی پبلک کو یوکرائن کی صورتِ حال سے صرف مطلع رکھ رہا ہے لیکن کر کچھ بھی نہیں سکتا۔ یورپ کا 55 فیصد تیل اور گیس روس سے آتا ہے۔ امریکا اور یورپی یونین نے روس پر جو اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں وہ دم توڑ رہی ہیں۔ روس نے یورپی ممالک کو کہا ہے کہ وہ تیل اور گیس کی خریداری کا بِل یورو کی بجائے روبل میں ادا کریں تاکہ اقتصادی پابندیوں کا موثر توڑ کیا جا سکے۔ پونڈ، ڈالر، یورو، جاپانی ژین اور روبل وغیرہ دنیا کی چند بڑی بڑی مالی کرنسیاں شمار ہوتی ہیں۔ تیل اور گیس کی ادائیگی جب روبل کی شکل میں ہونا شروع ہوجائے گی تو روس کو مالیاتی استحکام بھی ملنا شروع ہوجائے گا۔
روس، یوکرائن کی جنگ نے ثابت کردیا ہے کہ ہزاروں جوہری وار ہیڈز اور میزائل مل کر بھی روائتی سلاحِ جنگ کا بدل نہیں بن سکتے۔ جوہری جنگ کا مطلب دنیا کی آخری جنگ ہے لہٰذا اب دنیا کے اکثر ممالک جہاں جوہری اور میزائلی قوت کو بطور ڈراوا (Detterence) ڈویلپ کررہے ہیں وہاں وہ اپنی روائتی قوتِ حرب (یعنی غیرجوہری جنگ) میں اضافہ کررہے ہیں۔