Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان میں سنگین سیاسی بحران

پاکستان میں اس وقت سیاسی تقسیم انتہا پر ہے، تشویشناک بات یہ ہے کہ تقسیم کا یہ عمل اداروں تک پھیل گیا ہے، سیاسی جماعتیں تو ایک دوسرے کی مخالفت اور نظریاتی اختلاف کی بنا ہی اپنے پیروکاروں کو راغب کرتی ہیں مگر سیاسی اختلاف دشمنی میں نہیں بدلتا ہے، ہر دور میں سیاسی چپقلش اور مصحلت جاری رہی ہے، 9 اپریل 2022ء کو نیازی سرکار کے خاتمے کے لئے جب رات گئے عدالتیں کھلیں اور عدم اعتماد کی تحریک پر عمل درآمد کے حکم کو یقینی بنایا اُس دن سے لے کر اب تک سیاسی حالات معمول پر نہیں آسکے، مختلف سیاسی جماعتوں کا ایک جتھہ اقتدار میں تو آ گیا لیکن اس کے قانونی و اخلاقی جواز پر عوام و خواص کی جانب سے سوالات اٹھنے لگے کیونکہ اس ٹولے کا ماضی بدعنوانی کے حوالے سے انتہائی شرمناک ہے، نیب عدالتوں میں کیسز ہیں، سنگین مالی بے ضابطگیوں کے معاملات ہیں، متضاد یہ کہ والد وزیراعظم تو بیٹا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ ہے، جس کا انتخابی عمل اعلیٰ عدلیہ کے گزشتہ فیصلے کے بعد مشکوک ہوچکا ہے بلکہ اس کے آئینی و قانونی جواز پر سوالات اٹھ رہے ہیں، عام پاکستانی کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی ہے کہ جو لوگ اپنے دورِ اقتدار میں اتنے پراگندہ ہوچکے ہوں جن کی بدعنوانی کی داستان کی ایک تاریخ ہے، جنہیں اعلیٰ عدلیہ خائن اور بے ایمان قرار دے چکی ہوں وہ اب ملک کے انتظامی، اقتصادی، سماجی و خارجی معاملات کے فیصلے کررہا ہے۔ اقتدار کی غلام گردش کے اس کھیل کو آسانی سے تسلیم کرنے پر کوئی طبقہ بھی آمادہ نہیں ہے، ساتھ ہی وقت کی اپوزیشن (پی ٹی آئی) ایوان سے باہر ہے اور ٹکراؤ پر آمادہ ہے، سیاسی اختلافات اتنے شدید ہوچکے ہیں کہ مذاکرات تو درکنار قیادت ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، پی ٹی آئی کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان کا مطالبہ ہے کہ فوری انتخابات کا اعلان کیا جائے، اس کے لئے انہوں نے 25 مئی کو پشاور سے ایک بڑی ریلی اسلام آباد کی جانب نکالی، مطالبے کے پورا ہونے تک دھرنا دینے کا پروگرام بنایا تھا مگر اعلیٰ عدلیہ کے حکم اور حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے کچھ یقین دہانیوں کے باعث دھرنا ملتوی کردیا، ساتھ ہی چھ دنوں کا الٹی میٹم بھی دیا اور وعدے پورے نہ ہونے پر دوبارہ اسلام آباد آنے کی دھمکی دی، ٹکراؤ کی اس سیاست سے غیریقینی کی کیفیت ہے، معاشی سرگرمی ماند پڑ چکی ہے، مہنگائی کا طوفان ہے، پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کے بعد بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ ہونے والا ہے۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد نوجوان جس قدر مضطرب ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، اوپر سے مہنگائی کی لہر نے عوام کو بھی غضبناک کردیا ہے۔ سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ سیاسی جماعتیں تو ہمیشہ سے ہی منقسم رہی ہیں، ان میں اختلافات تو جمہوریت کی روح ہے مگر اداروں میں جو تقسیم ہے وہ ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ ایک کا رُخ شمال تو دوسرے کا جنوب ہے، عام پاکستانی چاہے وہ مزدور ہو، ریٹائرڈ افسر ہو یا طالب علم ہو۔ اس کا ایک ہی سوال ہے کہ ادارے سیاسی بندوبست میں اتنے ناکام کیوں رہے، سیاسی مافیا کی اجارہ داری توڑ دی گئی تھی تو پھر انہیں قدم جمانے کا موقع کیونکر دیا جارہا ہے، مانا کہ عمران رجیم میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت نہ تھی تو اس کی ناکامی کو پیش نظر رکھ کر پلان بی بنانا چاہئے تھا، انہیں اقتدار کی کرسی کیسے دی گئی جو ملک کی معاشی بدحالی، غربت، جہالت کے ذمہ دار ہیں، جنہوں نے کسی بھی ادارے کو توقیر و عزت نہیں دی، محاذآرائی کرتے رہے، اعلیٰ عدلیہ پر حملہ آور ہوتے رہے، زیادہ پرانی بات نہیں جب مقتدرہ پر جلسوں اور ریلیوں میں دشنام طرازی کی جاتی رہی ہے، کیا پچھلی حکومت کی بیڈ گورننس کا علاج یہ تھا کہ اُسے ہٹا کر بدعنوان ٹولے کو مسلط کردیا جائے، اداروں کو اس پر غور کرنا ہوگا کہ عمران خان کا مطالبہ جتنی جلد پورا کردیا جائے اتنا ملک کے لئے سودمند ہے، کیونکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد مزاحمت پر آمادہ ہے، وہ اپنے سامنے موجود کسی بھی ادارے سے ٹکر لینے کے لئے تیار نظر آتے ہیں، یہ بہت تشویشناک ہے کیونکہ اگر ایسی صورتِ حال ہوتی ہے تو ملک کے لئے تباہ کن ہوسکتی ہے،ہمارا ایک ہی ادارہ ہے جو پوری قوم کے لئے باعث فخر ہونے کے ساتھ باعث تقویت بھی ہے، لیبیا، افغانستان، عراق، شام کی مثالیں موجود ہیں، اس لئے اداروں کو سیاسی تضادات کو ختم کرنے کے لئے ہنگامی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوگا، عمران خان اس مرتبہ تو اسلام آباد سے واپس خیبرپختونخوا چلے گئے لیکن دوبارہ آئے تو فیصلہ کن اقدام کے بغیر واپس نہیں جائیں گے جبکہ حکومت اُن کے خلاف جارحانہ حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے، ٹکراؤ کی یہ کیفیت جمہوری نظام کے لئے خطرناک ہے، اداروں کو بڑھتے سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، تمام سیاسی جماعتوں کو ایک قابل قبول حل کی طرف لانا ہوگا، عمران خان کا احتجاج پورے ملک کو مفلوج کرسکتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی اسٹریٹ پاور پورے ملک میں موجود ہے، اگرچہ تنظیمی صلاحیت نہیں ہے لیکن کسی بھی احتجاج کے دوران غیرملکی قومتیں اپنا کھیل شروع کرسکتی ہیں، کیونکہ بپھرے ہوئے نوجوانوں کو وسائل کے استعمال سے اپنے مذموم مقاصد کی جانب موڑا جاسکتا ہے، خطے کے تزویراتی اہداف ویسے بھی طے کئے جا چکے ہیں، پاکستان اور اس کے اطراف کے مسلمان ملکوں کی تقسیم کا امریکی منصوبہ شروع ہوچکا ہے، موجودہ سیاسی مینڈیٹ پر نظر ڈالیں تو تینوں بڑی جماعتوں کو ایک ایک صوبے میں واضح اکثریت حاصل ہے۔ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی، پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو عوام کی واضح حمایت حاصل ہے جبکہ بلوچستان ہمیشہ سے کسی بھی ایک جماعت کو مینڈیٹ نہیں دیتا، اگرچہ یہ جمہوری نظام کا معمول ہے مگر موجودہ سیاسی صورتِ حال میں یہ خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ اداروں کو اس کا سدباب کرنے کے لئے پہلے اس کی سنگینی کا ادراک کرنا ہوگا، اگر اداروں میں ہم اہنگی نہ ہوئی تو آنے والے دنوں میں ملکی سلامتی کو نئے خطرات کا سامنا ہوگا۔ اس پر زیادہ کھل کر اظہار نہیں کیا جاسکتا مگر اداروں کو اس نہج پر غوروفکر کرنا ہوگا، سیاسی تضاد سلامتی کے لئے خطرہ نہ بن جائیں، ابھی تک بے چینی زبانوں اور سوشل میڈیا پر ہے، وہ عملی صورت میں سڑکوں پر نہیں آئی ہے، حالانکہ اس کا کچھ ٹریلر نظر آ چکا ہے، اس سے قبل کہ اس کی پوری فلم چلے اور کسی بھیانک انجام تک پہنچے، وہ کسی کے لئے بھی خوشگوار نہیں ہوگا، اس لئے معاملہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچنے سے پہلے ہی ختم کرنا ہوگا، ابھی اداروں کے پاس وقت ہے لیکن اتنا بھی زیادہ نہیں۔

مطلقہ خبریں