یہاں قیام کرو یا کہیں سفر میں رہو
سلف کی بوئے دل آویز کے اثر میں رہو
یہ عصر نو کی چکاچوند اک جہنم ہے
بہارِ ناز کے فردوسِ بام و در میں رہو
روش روش میں یہاں رہزنوں کے پھیرے ہیں
متاعِ حسن سلامت، سمٹ کے گھر میں رہو
یہ شاخ شاخ چہکنے کی خو نہیں اچھی
اسیر یوں نہ طلسمِ گل و ثمر میں رہو
سمجھ سکو تو یہ جڑ ہے بڑی خرابی کی
کہ رُوز رُوز نمایاں نئی خبر میں رہو
یہ شوقِ جلوہ نمائی، ہتک جمال کی ہے
مرے دماغ، مرے دل، مری نظر میں رہو
خیال و خامہئ کاوشؔ کا اعتبار ہو تم
میری غزل کے ہر اک حرفِ معتبر میں رہو
کاوشؔ عمر