Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عزل

کسی نے چاند جلایا تو میری آنکھ کھلی
چراغ سامنے آیا تو میری آنکھ کھلی

میں تین چار بجے تک تو جاگتا ہی رہا
پھر اس نے آ کے سُلایا تو میری آنکھ کھلی

میں اپنا آپ بہت دیر کھٹکھٹاتا رہا
کوئی جواب نہ آیا تو میری آنکھ کھلی

قدیم خواب پڑا رہ گیا تھا بستر میں
کسی نے یاد دلایا تو میری آنکھ کھلی

وہ میری نیند بھی ایسے لپیٹ کر سویا
ذرا جو اُس کو جگایا تو میری آنکھ کھلی

وہ لوگ دائرے میں کھینچتے رہے مجھ کو
پھر اُس نے ہاتھ بڑھایا تو میری آنکھ کھلی

نحیف شام کی اُنگلی پہ اٹکے سورج نے
نگل لیا کوئی سایہ تو میری آنکھ کھلی

طلسم پھونکتا وہ بڑھ رہا تھا میری طرف
درود پڑھ کے گرایا تو میری آنکھ کھلی


آصف انجم


مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل