Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سمندری حیات کے لئے زہرقاتل

شہر قائد میں سیوریج کا پانی اور انڈسٹریل ویسٹ 1970ء کی دہائی تک سمندر صاف ستھرا ہوتا تھا لیکن ہماری ماحولیاتی تباہی بڑھ رہی ہے، 2014ء میں سندھ میں انوائرنمنٹل ایکٹ بنا، سندھ اسمبلی سے قانون منظور ہوا لیکن ماحولیاتی قوانین پر عمل نہیں ہوتا، صرف سمندر ہی نہیں دریائے سندھ، شہروں میں کینالز اور جھیلوں میں فضلا اور فیکٹریوں کا فضلا پھینکا جاتا ہے، دُنیا کے دوسرے کسی بھی ملک میں یہ نہیں ہوتا، سمندر کی تباہی اور آبی حیات کی تباہی سے سب سے زیادہ نقصان ماہی گیری اور مینگروز کو ہوتا ہے، ماحولیاتی ماہر ناصر پٹورے
ڈاکٹر نواز خان
ساحل سمندر پر غیرملکی جوڑا اونٹ کی سواری سے لطف اندوز ہورہا تھا اور 70 سالہ جمن اونٹ کے آگے دوڑ رہا تھا، وہ اونٹ سے زیادہ ہانک رہا تھا، کوئی ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دو پھیرے لگانے کے بعد گورے نے جیب سے ایک سو روپے کا نوٹ نکال جمن کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا سو کر یہ (شکریہ)۔ میں نے آگے بڑھ کر جمن سے پوچھا یہ کام کب سے کررہے ہو؟ جب سے میں جوان تھا، جمن کا دوٹوک جواب ملا۔ جب تم جوان تھے تو کیا سمندر کے کنارے ایسا ہی گندا پانی تھا؟ جمن بابا رکے اور بولے نہیں۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ چالیس پچاس سال پہلے سمندر میں سکہ پھینکتے تھے تو وہ بھی پانی میں نظر آتا تھا، پانی بہت صاف نظر آتا تھا۔ پہلے تو پانی کا رنگ نیلا تھا اب آپ دیکھیں تو پورا کالا ہے، اونٹ بان جمن نے مختصر الفاظ میں نیلے گہرے سمندر کا قصہ بیان کردیا۔ اب ہم نے سمندر کو گٹر لائن سمجھ کر پورے شہر کے سیوریج کا رُخ اس جانب موڑ دیا ہے۔ صنعتوں کا زہریلا فضلہ، پورے شہر کا کچرا بھی سمندر میں جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یومیہ 500 ملین گیلن سے زیادہ گٹر لائنوں کا سیوریج اور یومیہ 20 ہزار میٹرک ٹن کچرا سمندر میں پھینکا جاتا ہے، جس میں اسپتالوں کا زہریلا فضلہ بھی شامل ہے۔ ٹھٹھہ کے ساحل سے لے کر کراچی کا پورا کوسٹل بیلٹ کچرے، فضلے اور زہریلے مادوں سے بھرا ملے گا کیونکہ سکڑوں کی تعداد میں صنعتیں اور صنعتی زون بھی سمندر کے کنارے پر ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے قریب لگ بھگ 180 فیکٹریاں چل رہی ہیں، اس طرح پورٹ قاسم کے قریب سیکڑوں فیکٹریاں موجود ہیں، جن میں آئل، سیمنٹ، پاور پلانٹ، کیمیکلز کی فیکٹریاں اور گودام موجود ہیں۔ گھارو، دھابے جی، اسٹیل ملز، پورٹ قاسم، ابراہیم حیدری، لانڈھی، کورنگی بھینس کالونی، کیماڑی ویسٹ سمیت سمندری کناروں پر موجود فیکٹریوں کا کچرا براہ راست سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ عالمی ماحولیاتی قوانین کے مطابق یہ بہت بڑا جرم ہے لیکن کراچی میں نہ جانے کس کو اس کا مجرم تصور کیا جائے؟ سمندر کی بھی ایک زندگی ہوتی ہے اور اس میں لاکھوں کی تعداد میں آبی حیات موجود ہیں۔ زہریلا کیمیکل ڈالنے والے تمام ادارے سمندری حیات کے قاتل ہیں لیکن ماحولیاتی قاتلوں کے چہروں پر ماسک اور ہاتھوں میں دستانے پہنے ہوئے ہیں اور حکومتی اداروں نے آنکھیں موند لی ہیں۔ مختلف اداروں کی مختلف آراء ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں، مقامی حکومتیں، کنٹونمنٹ بورڈز، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم، میرین ڈیپارٹمنٹ، فش ہاربر اتھارٹی، فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی سمیت سمندر سے وابستہ تمام ادارے اور محکمے بالواسطہ یا بلاواسطہ سمندر کو گندا بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کی قیادت میں واٹر کمیشن بنایا گیا تھا۔ واٹر کمیشن نے سندھ میں پینے کے پانی اور سیوریج کے مسائل پر صوبہ بھر کے دورے کئے تھے اور کمیشن نے سمندر کو گندا بنانے کے مسئلہ پر ایک تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کی تھی جس پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیراعلیٰ سندھ، میئر کراچی اور سابق ناظم اعلیٰ کو عدالت میں طلب کیا تھا۔ واٹر کمیشن کے اہم رکن ایڈووکیٹ شہاب اوستو نے بتایا کہ کراچی میں اس وقت کہیں بھی کوئی ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہی نہیں ہے، شہر میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں تین ٹریٹمنٹ پلانٹ ہوا کرتے تھے جن کا کام تھا کہ سیوریج زدہ پانی کو ٹریٹ کرنے کے بعد سمندر میں چھوڑا جاتا تھا، لیکن تینوں پلانٹس ختم کرکے ان کی زمینوں پر یا تو قبضے کئے گئے یا پھر حکومتوں نے وہ زمین خود ہی نیلام کردی، جن میں محمودآباد میں 130 ایکڑ اراضی سیوریج لائنیں ٹریٹمنٹ کے لئے مختص تھیں۔ سابق ناظم اعلیٰ مصطفی کمال نے عدالت کو بتایا کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کی زمین لائنز ایریا سے صدر کاریڈور کے متاثرین میں تقسیم کی گئی۔ دوسرا ٹریٹمنٹ پلانٹ ماری پور میں ہے جو گزشتہ بیس برس سے کام نہیں کررہا۔ تیسرا پلانٹ گٹر باغیچہ بن گیا۔ واٹر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سیوریج فلٹر پلانٹ کے بغیر 45 کروڑ گیلن سیوریج کا پانی سمندر میں داخل ہوتا ہے اور 12 ہزار ٹن سالڈ ویسٹ (کچرا) سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ ایڈووکیٹ شہاب الدین اوستو کہتے ہیں کہ ”لینڈ فل سائٹس“ میں سائنسی طریقہ سے کچرا پھینکا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ٹریٹمنٹ پلانٹ اور لینڈ فل سائٹس سرگرم نہ ہونے کی وجہ سے تمام ادارے کچرا اور سیوریج سمندر میں پھینکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سندھ حکومت اور شہری حکومت کو پابند کیا تھا کہ ٹریٹمنٹ پلانٹس کو متحرک کرکے پہلے سیوریج کے پانی کو ٹریٹ کیا جائے، اس کے بعد سمندر میں چھوڑا جائے لیکن واٹر کمیشن کی مدت گزشتہ برس ختم ہوگئی ہے۔ واٹر کمیشن کی مدت ختم ہونے کے بعد آج تک کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ آئی سی یو این سے وابستہ ماحولیاتی ماہر ناصر پٹورے نے بتایا کہ 1970ء کی دہائی تک سمندر صاف ستھرا ہوتا تھا لیکن ہمارے ماحولیاتی تباہی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2014ء میں سندھ میں انوائرنمنٹل ایکٹ بنا۔ سندھ اسمبلی سے قانون منظور ہوا لیکن ماحولیاتی قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔ صرف سمندر ہی نہیں دریائے سندھ، شہروں میں کینالز اور جھیلوں میں فضلا اور فیکٹریوں کا فضلا پھینکا جاتا ہے۔ دُنیا کے دوسرے کسی بھی ملک میں یہ نہیں ہوتا، سمندر کی تباہی اور آبی حیات کی تباہی سے سب سے زیادہ نقصان ماہی گیری اور مینگروز کو ہوتا ہے۔ ماہی گیروں کی فلاح کے لئے فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ کام کرے۔ ایف سی ایس کے چیئرمین عبداللہ نے بتایا کہ سمندری آلودگی سے ماہی گیری کی صنعت کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ ساحل پر ٹنوں کے حساب سے مری ہوئی مچھلی ملتی ہے۔ سمندر کے اندر زہریلے کیمیکلز کی وجہ سے مچھلی مر جاتی ہے۔ کوسٹل بیلٹ پر فیکٹریاں نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ پلاسٹک کے تھیلوں کی وجہ سے بھی سمندر گندا ہوتا ہے، اب تھیلوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ ہم جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ایسی تھیلیاں لا رہے ہیں جو کچھ ہی عرصہ میں ختم ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سمندر کی صفائی وفاقی ادارے کے پی ٹی کی ذمہ داری ہے۔ ہم ہر سال صفائی کے لئے کروڑوں روپے ادا کرتے ہیں لیکن فش ہاربر اور ساحلی علاقوں کی صفائی نہیں ہوتی۔ کراچی کی قدیم ماہی گیر بستی سے وابستہ ماہی گیر تنظیم کے رہنما محمد علی شاہ سمندر کی تباہی کے ذمہ دار حکومتی اداروں کو قرار دیتے ہیں۔ محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور انڈسٹریل ویسٹ کی وجہ سے سمندری زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ آئل پلانٹ لگ رہے ہیں، اسپتالوں کے زہریلے مادے خارج ہوتے ہیں۔ گیسز کی فیکٹریوں کے مادے ہیں، سب سے سب سمندر میں پھینکے جاتے ہیں۔ کوئی عالمی عدالت میں گیا تو ہماری حکومت اس کی مجرم ٹھہرے گی۔ ساحل سمندر کی تباہی، آبی حیات کے قتل، روزانہ 500 ملین گیلن سیوریج اور 20 ہزار میٹرک ٹن کچرا پھینکنے کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، نہ صوبائی حکومت، نہ وفاقی حکومت، نہ شہری حکومتیں۔ لیکن یہ ایک بھیانک صورتِ حال ہے، اب تو سمندر کے پانی سے جلدی بیماریاں بھی پیدا ہونے لگی ہیں جو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہیں۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل