Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزل

ہونے لگی خلاؤں میں اب زندگی کی بات
یہ بیسویں صدی ہے کرو اِس صدی کی بات

برسوں کا اکتساب لئے لفظ لفظ میں
میرا وجود کرنے لگا شاعری کی بات

ٹوٹے ہوئے جو ربط تھے وہ ہوگئے بحال
صد شکر زندگی سے ہوئی زندگی کی بات

پھر ذہنی ارتقا ہے بلندی سے چارسُو
ہوتی ہے تیرگی میں یہاں روشنی کی بات

آئینہ دیکھنا ہی فقط جس کا کام ہو
وہ حُسن کیا کرے گا کبھی آگہی کی بات

تحریر ذہن و دل پہ عبارت اُسی کی ہے
لکھی ہوئی ہے روزِ ازل سے اُسی کی بات

دل ہے کہ ایک باغِ مسرت سے کم نہیں
خوشبو لئے ہوئے فریدیؔ خوشی کی بات

آئینہ دیکھنے کی بھی فرصت نہیں جسے
وہ آنکھ کیا کرے گی کسی آدمی کی بات

——————
اسلم فریدیؔ


مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل