افسانہ
جویریہ شاہ رخ
بیگم کنول آج صبح ہی سے ناشتے کی تیاری میں مصروف تھیں۔ آخر اُن کی بیٹی کے سُسرال والے، شادی کی تاریخ لینے جو آرہے تھے۔ ”شام کے چار بج رہے ہیں۔ یہ لڑکی کب آئے گی؟“ بیگم کنول گھڑی پر نظر جما کر بولیں تو ساتھ ہی سحرش گھر میں داخل ہوگئی۔ ”السّلام علیکم“ ”وعلیکم السّلام بیٹا! کہا بھی تھا کہ آج کوچنگ کی چھٹّی کر لو۔ وہ لوگ آتے ہی ہوں گے۔ اب جلدی جاؤ، نہا دھو کے اپنا آسمانی رنگ والا عید کا جوڑا پہن لینا۔“ سحرش نے عبایا اتارتے ہوئے ”اچھا امّی“ کہا اور نہانے چلی گئی۔
”السّلام علیکم!“ سحرش کمرے میں ناشتے کی ٹرے لے کر داخل ہوئی، تو مسز ریاض اس کی طرف متوجّہ ہوئیں ”وعلیکم السّلام!“ مسز ریاض نے اس پر ایک گہری نگاہ ڈالی۔ سحرش دراز قد اور سانولے رنگ کی مالک تھی۔ آسمانی قمیص، چُوڑی دار پاجامے میں کافی پیاری لگ رہی تھی، ساتھ ہلکے گلابی رنگ کی لِپ اسٹک اور سر پہ قرینے سے ٹکایا گیا دوپٹا، اُسے اور بھی مہذّب اور پُروقار بنا رہا تھا۔ وہ کچھ دیر بیٹھی اور ناشتا سرو کر کے چلی گئی۔
مسز ریاض واپسی پر سحرش ہی سے متعلق سوچوں میں گُم تھیں۔ گھر آکر بچیوں کے کمرے میں گئیں، تو آمنہ پڑھ رہی تھی، جب کہ کرن سو چُکی تھی۔ ماں کو دیکھ کر آمنہ نے ہونے والی بھابھی سے متعلق پوچھا اور مسز ریاض سوچوں میں گُم جواب دیتی رہیں۔ آمنہ قریب آکر ماں کا ہاتھ پکڑ کر بولی ”کیا ہوا امّی، آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں؟“ ”نہیں! کچھ نہیں ہوا۔“ ”کچھ تو ہے، آپ کیا سوچ رہی ہیں؟“ ”بس آج سحرش کو دیکھ کر مَیں سوچ رہی تھی کہ کہیں مَیں نے اس سے اسد کی منگنی کرکے کوئی غلطی تو نہیں کردی؟“
آمنہ انتہائی حیرانی سے آنکھیں کھول کر اپنی ماں کو دیکھنے لگی ”یہ اچانک کیا ہوگیا، خود ہی تو اتنی تعریفیں کرتی تھیں کہ سلیقہ مند ماں کی بیٹی لارہی ہوں اور اب ایسی باتیں کر رہی ہیں۔ کیا وہاں کوئی بات ہوئی ہے؟“ ”بات تو کوئی نہیں ہوئی، بس اس کا دوپٹے میں لپٹا رہنا مجھے پسند نہیں۔ وہ میرے ساتھ بیٹھ کر میری کلاس کی لگنی چاہئے۔
دیکھا نہیں ہے بھابھی کی بہو ملائکہ کو۔ ایک سے ایک فیشن کرتی ہے، کس قدر کِٹ میں رہتی ہے۔ مَیں پردے کی بوبو بہو کے ساتھ سب کو کیسے فیس کروں گی…!“ ”اگر یہی بات تھی، تو آپ نے پہلے سحرش کو پسند ہی کیوں کیا؟ اور اگر کر ہی لیا تھا، تو اب شادی سے چند ہفتے پہلے یہ خیال کیوں آرہا ہے؟ وہ کون سا پردہ کرتی ہے، بس دوپٹا ہی تو سر پر رکھتی ہے اور اب آپ پریشان مت ہوں، وہ اچھے اخلاق کی سُلجھی ہوئی لڑکی ہے، ہمارے طور طریقے جلد سیکھ جائے گی۔“ مسز ریاض مسکرائیں اور آمنہ کی باتوں سے کچھ مطمئن ہو کر اپنے بیڈ رُوم کی طرف چلی گئیں۔
دن گزرتے گئے اور شادی کا دن آگیا۔ ”سحرش بیٹا! میری ایک بات پلّو سے باندھ لو کہ کبھی بھی قدم جذباتیت کے ساتھ مت اُٹھانا۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تمہاری نئی زندگی خوشیوں اور آسانیوں سے بھر دے۔“ آج سحرش کی رخصتی تھی، پارلر جاتے ہوئے کنول نے اپنی بیٹی کو الوداع کہا۔ بیگم کنول نے شاندار انداز میں بیٹی رخصت کی، تمام انتظامات بہت اچھے تھے۔ بہت سے مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا، پُرلطف طعام سے تواضع کی گئی، مگر ڈرون کیمرے، مووی میکنگ یا گانے بجانے کا انتظام نہیں تھا، جس پر مہمانوں نے بہت باتیں بنائیں، کوئی کہہ رہا تھا کہ ”بورنگ گیٹ ٹو گیدر رکھی ہے، تو کوئی کہہ رہا تھا کہ میوزک کے بنا کیسی شادی، کھانا تو ہم اپنے گھر پہ بھی کھا سکتے تھے۔“
دوسری طرف مسز ریاض ایک بزنس وومن تھیں، انہوں نے فیشن ڈیزائننگ میں ماسٹرز کر رکھا تھا اور ایک بوتیک کی مالک تھیں۔ ویسے تو ریاض صاحب کے ہوتے ہوئے انہیں کسی چیز کی کمی نہ تھی، لیکن صرف اپنے شوق کی تکمیل کے لئے کام کرتی تھیں۔ ان کے چار بچّے، اسد، آمنہ، کرن اور ظفر تھے۔ سحرش، ریاض صاحب کے دوست، حمید کی بیٹی تھی۔ مسز ریاض کو سحرش کے بات کرنے کا انداز، دھیما لہجہ اور معصوم سی ہنسی بہت بھائی تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے اسد کے لئے جو لڑکیاں دیکھیں، وہ کافی فاسٹ فارورڈ اور بولڈ تھیں، مگر پتا نہیں کیا سوچ کر مسز ریاض اُنہیں انکار کرتی رہیں، جب کہ وہ لڑکیاں اُن کے معیار کے عین مطابق تھیں۔
شادی کے اگلے دن کرن اور آمنہ اپنی کزنز کے ساتھ نئی نویلی بھابھی کو تیار کرنے کمرے میں آئیں۔ گھر میں بھابھی آنے کی خوشی چاروں اور پھیلی ہوئی تھی۔ آمنہ جیسے ہی سحرش کا دوپٹا کندھے پر پِن اَپ کرنے لگی، تو سحرش نے کہا ”پلیز، ایک پِن ہیڈ پر بھی لگا دو، ورنہ یہ دوپٹا تو گرتا ہی رہے گا۔“ ”اوہو، ڈونٹ وَری! سر پر نہیں لیں۔ یوں ہی آجائیں، اتنے اچھے بال اسٹریٹ ہوئے ہیں، وہ بھی تو دکھائیں ناں۔“ سحرش کچھ نہ بول پائی، مگر آمنہ نے خود ہی کہا ”اچھا کنفیوژ نہ ہوں۔ کرن ذرا! پِن دینا“ اور پھر سحرش کے سر پر دوپٹا پِن اَپ کردیا۔ شادی کو قریباً ایک مہینہ ہوچکا تھا۔
مسز ریاض نے رات کے کھانے پر سحرش سے کہا ”بیٹا! کل شام کی چائے پر میری کچھ فرینڈز آرہی ہیں۔ وہ آپ سے پہلی بار ملیں گی تو اپنے ہاتھ کا کچھ بنا لینا۔“ ”جی ممی، آپ بتا دیں، کیا بناؤں؟“ ”پیزا اور کچھ اسنیکس بنا لو، آپ کے ہاتھ کا پیزا ہم سب ہی کو بہت پسند ہے۔“ اگلے دن مسز ریاض کی سہیلیاں گھر میں موجود تھیں۔ تمام دوستوں نے شارٹ شرٹس، سلیو لیس بلاؤز وغیرہ زیبِ تن کر رکھے تھے۔
سحرش نے ڈرائنگ روم میں داخل ہو کر ”السّلام علیکم“ کہا تو سب سحرش کی طرف متوجّہ ہوگئیں۔ وہ آف وائٹ رنگ کا باریک کڑھائی کا سوٹ اور کافی کلر کا نازک سا سیٹ پہنے بہت پُرکشش لگ رہی تھی۔ ناشتے کے لئے ٹیبل پر مدعو کیا گیا، تو سب کو انتظامات، بالخصوص سحرش کے ہاتھ کی تمام ڈشز بہت پسند آئیں۔
سہیلیوں کے جانے کے بعد مسز ریاض نے سحرش سے کہا ”بیٹا آج تو آپ سر سے دوپٹا اُتار دیتیں، صرف لیڈیز ہی تو تھیں۔ میری فرینڈز پہلی مرتبہ آپ سے مل رہی تھیں اور آپ ڈھائی گز کا دوپٹا تان کر آگئیں۔“ یہ بات انہوں نے اسد کے سامنے کہی۔ جس پر اسد نے فوراً کہا ”کیا ہوگیا ممّی! ہر ایک کی اپنی پسند، ناپسند، رہن سہن ہوتا ہے۔“ اس دوران سحرش خاموش ہی رہی۔ کھانے کے بعد جب وہ کمرے میں گئی تو کافی روہانسی ہورہی تھی۔
اتنے میں اسد کمرے میں داخل ہوا اور بولا۔“ ”چاؤمین بہت مزے کا تھا۔ تم نے بنایا تھا…؟“ سحرش کچھ نہ بولی، بس سر ہلا دیا۔ ”اچھا، اور پیزا؟“ ”جی، وہ بھی مَیں نے بنایا تھا اور کھیر ممّی نے۔“ سحرش نے مختصر جواب دیا۔ تو اسد نے اُس کا ہاتھ تھام لیا۔ ”یوں منہ لٹکا کر بیٹھنا ہے سرکار کو…؟ اچھا سُنو! مجھے تمہارا یہی گیٹ اَپ پسند ہے۔ باقی چاہے کسی کو اچھا لگے یا بُرا۔“ اسد نے بہت پیار سے کہا تو وہ بھی مسکرا دی۔
یوں تو سحرش کو سب نے بخوشی قبول کیا تھا۔ اس کی کوکنگ، اندازِ کلام اور پُرخلوص لب ولہجہ سب ہی کو بھاتا، لیکن جب کبھی ڈریسنگ کی بات ہوتی تو سحرش کا دوپٹا ہدفِ تنقید بن جاتا۔ مگر وہ خاموشی سے سب برداشت کرتی۔ حالاں کہ اسے کبھی کبھار غصّہ بھی آ جاتا تھا کہ ”جب پتا تھا کہ مَیں ایسی ہوں، تو کیوں بیاہ کر لائیں۔“ مگر اُس نے کبھی پلٹ کر جواب نہ دیا۔
اُس کی شادی کو چار ماہ ہوئے تھے کہ آمنہ کی شادی بھی طے ہوگئی۔ سب بہت خوش تھے۔ شادی کی تاریخ ٹھہرتے ہی تیاریوں کی باتیں ہونے لگیں۔ کلر اسکیم، تھیم، ڈریسنگ اسٹائل…“ ”ممی مَیں سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ اپنی بارات، ولیمے کے ڈریسز ہی پہن لوں۔ وہ ہیوی ڈریسز اِن ہی موقعوں پر تو اچھے لگتے ہیں ناں … پھر میری شادی کے بعد گھر کی پہلی شادی ہے، تو اچھا بھی لگے گا۔“ سحرش نے ساس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ”ہاں، بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔ اتنے اچھے کپڑے ہیں، بعد میں نہ جانے کب پہننے کا موقع ملے۔“ مسز ریاض نے جواب دیا تو سحرش نے دل ہی دل میں اللہ کا شُکر ادا کیا کہ اب وہ سلیو لیس، شارٹ شرٹس وغیرہ پہننے سے بچ جائے گی۔
آمنہ کی رخصتی کی تقریب بہت اچھے انداز سے اور بڑے پیمانے پر ہوئی۔ گو کہ اس کے سسرال والے شہر کے معزّزین میں سے تھے، لیکن ریاکاری، بے جا نمودونمائش تو جیسے انہیں چھو کر نہیں گزری تھی۔ اور ساس تو انتہائی سادہ طبع خاتون تھیں۔ ”مسز ریاض! آپ لوگوں نے بہت تکلّف کیا، مگر آمنہ میری بہو نہیں، بیٹی ہے۔ وہ سسرال نہیں، اپنے ہی گھر جا رہی ہے۔ بس اللہ سے دُعا ہے کہ وہ بھی میرے گھر کو اسی طرح روشن کردے، جیسے سحرش نے آپ کا گھر کیا ہے۔
سچ کہوں تو اسے دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے، اس قدر سلیقہ شعار، پُروقار اور مہذّیب بچّی ہے، ورنہ آج کل کی لڑکیاں تو بس فیشن کے نام پر بولڈ ڈریسنگ کرنے کی دل دادہ ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ آمنہ بھی اپنی بھابھی جیسی ہی سمجھ دار اور روشن خیال ہوگی۔“ آمنہ کی ساس نے مسز ریاض سے انتظامات اور سب سے بڑھ کر سحرش کی تعریف کی تو وہ کچھ شرمندہ سی ہوگئیں کہ انہوں نے جس بہو کی ڈریسنگ پر ہمیشہ ہی تنقید کی، وہ ان کی سمدھن کے سامنے کیسے ان کی عزّت کا سبب بن رہی ہے۔
گھر آکر مسز ریاض نے بے اختیار سحرش کو گلے لگا لیا۔ ”بیٹا! مجھے معاف کردو۔ مَیں زندگی بھر روشن خیالی کا لبادہ اوڑھے یہی سمجھتی رہی کہ سلیو لیس، جینز، ٹی شرٹس پہننا ہی لبرل اِزم ہے۔ مَیں بھول گئی تھی کہ عبایا پہننے والی، حجاب کرنے والی یا سر پر دوپٹا لینے والی تم جیسی لڑکیاں بھی یہ سب اپنی مرضی سے، ربّ کی رضا کے لئے کرتی ہیں، تو وہ بیک وَرڈ کیسے ہوسکتی ہیں۔ اصل روشن خیالی تو یہ ہے کہ تمہیں جو اچھا لگے، وہ کرنے دوں۔ تمہاری جس سادگی، پردے کو مَیں اپنی شان کے خلاف سمجھتی رہی، درحقیقت وہی آج میرے لئے باعثِ عزّت بنی۔“