آئے دن مختلف ویڈیو گیمز اور مخرب اخلاق ایپلی کیشنز لانچ ہوتی رہتی ہیں جن کے ذریعے نوجوان اور بچے وقت کو ضائع کرکے اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے بجائے تاریک کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں
نسیم الحق زاہدی
انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے اس دورِ جدید میں آئے دن مختلف ویڈیو گیمز اور مخرب اخلاق ایپلی کیشنز لانچ ہوتی رہتی ہیں، جن کے ذریعے نوجوان اور بچے اپنے وقت عزیز کو ضائع کرکے اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے بجائے تاریک کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ”پب جی“ ایسی ہی ایک گیم ہے۔ پب جی جو اس وقت دُنیا بھر میں بڑے پیمانے پر کھیلی جا رہی ہے، بچے ہوں کہ بڑے اس کے جنون میں مبتلا نظر آ رہے ہیں، جس کو اس کی لت لگ جاتی ہے وہ دن ہو کہ رات بس پب جی ہی کی دُنیا میں مست و مگن رہتا ہے اور اسی کو اپنی دُنیا سمجھتا ہے۔ اس سے پہلے سپرماریو اور بلیو وہیل جیسی گیمز بھی اپنے جادو کا اثر دکھا چکی ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا تھا کہ قیامت سے پہلے ایک بہت بڑی جنگ ہوگی اور یہ جنگ ایسی ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی ایسی جنگ دُنیا میں ہوئی ہوگی نہ اس کے بعد کبھی ہوگی، ملک شام اس کا میدان بنے گا۔ حضور اقدسؐ نے اس جنگ کے اوصاف بناتے ہوئے فرمایا کہ یہ جنگ اتنی خطرناک ہوگی کہ ہر 100 میں سے 99 مریں گے اور ایک بچے گا۔ اس میں شریک ہونے والوں اور جہاد کرنے والوں کی فضیلت ہے، لیکن اس کے علاوہ خوف میں مبتلا ہونے والوں کے لئے جہنم کی وعید ہے۔ جس جنگ کی ہمارے پیارے نبیؐ رحمتہ للعالمین نے حدیث مبارکہ میں فرمایا تھا شاید پب جی گیم بھی اس جنگ کا حصہ ہے۔ لاہور میں پچھلے دنوں ایک دلخراش واقعہ نے دل ہلا کر رکھ دیا کہ کس طرح ایک 18 سالہ نوجوان نے مہلک گیم پب جی میں ناکامی کا غصہ اپنے گھر والوں پر اتار دیا اور اپنی والدہ سمیت دو بہنوں اور ایک بھائی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پولیس کے مطابق پب جی گیم کھیلنے والا زین وقوعہ کے روز رات بھر نہیں سویا، زین نے پب جی گیم کھیلنے کے بعد ماں، بھائی اور بہنوں کو قتل کیا۔ پولیس کی تفتیش کے دوران یہ انکشافات بھی ہوئے ہیں کہ ملزم جب بھی یہ گیم ہارتا تھا تو یہ اچانک خاموش ہوجاتا اور کھانا پینا چھوڑ دیتا اور حقیقت سے بھی زیادہ یہ پب جی گیم کو سنجیدگی سے لیتا تھا۔ پولیس کے مطابق قتل کرنے کا انداز انتہائی پروفیشنل تھا۔ اس کو پتا تھا کہ پستول کی آواز آئے گی اور لوگ آجائیں گے۔ اس نے تکیے کے اندر سے پستول کا فائر کیا، جس سے کافی حد تک آواز کم نکلی۔ گھر کے اندر کے لئے تو پھر بھی یہ کافی تھی لیکن محلے والوں کے جاگنے کے لئے ناکافی تھی۔ لاہور پولیس نے اس واقعے کے بعد آئی جی پنجاب کو ایک خط لکھ کر سفارش کی ہے کہ پی ٹی اے کے ذریعے پب جی گیم پر پاکستان میں مکمل پابندی عائد کی جائے۔ گزشتہ دو برسوں میں پورے پنجاب میں لگ بھگ ایک درجن اس سے ملتے جلتے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ اچھرہ میں فرسٹ ایئر کے طالب علم نے پب جی گیم کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کی۔ پنجاب سوسائٹی میں 28 سالہ نوجوان شہریار بھی پب جی کے باعث موت کے منہ میں چلا گیا۔ شہریار نے پب جی گیم میں شکست کے بعد زندگی کا خاتمہ کیا۔ تھانہ شمالی چھاؤنی کے علاقے میں پب جی گیم پر شرط ہارنے پر 16 سالہ غلام عباس نے خودکشی کی۔ 2020ء میں جان لیوا ویڈیو کھیل کی بدولت قتل کا افسوسناک واقعہ پیش آنے پر اس وقت کے پولیس آفیسر نے اس قاتل گیم پر پابندی کی سفارش کی تھی۔ اگرچہ ابھی تک کسی پولیس کی تفتیشی رپورٹ میں یہ بات سامنے نہیں آئی کہ لڑکے کے پاس ہتھیار کیسے، کہاں سے آئے مگر قتل کا محرک ”پب جی“ گیم کی لت ہی ہے۔ اس سے پہلے واقعے میں بلال نامی شخص نے اپنی ماں، بھابھی، پڑوسی کو فائرنگ کرکے مار ڈالا جبکہ بھائی اور بہن شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد پب جی گیم کے نوجوان نسل پر خونی اثرات کی بندش کے متعلق قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کروائی گئی تھی۔ بھارت میں تو پچھلے ہفتہ پانچ ملزمان نے اپنے ہی ایک 23 سالہ ساتھی کو اغوا کیا اور اس کے والد سے 10 ہزار روپے لئے۔ یہ تمام یعنی گرفتار و اغوا ہونے والا بیس پچیس سال کی عمر کے لوگ تھے۔ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں مسلسل چھ گھنٹے پب جی کھیلنے کی وجہ سے فرقان قریشی نامی لڑکے کی موت ہوگئی، دوران گیم ہلاک ہونے والے لڑکے کے والد کا کہنا تھا کہ اس کا بیٹا فرقان قریشی مسلسل چھ گھنٹے سے پب جی گیم کھیل ریا تھا کہ اس دوران اسے مبینہ طور پر دل کا دورہ پڑا اور وہ ہلاک ہوگیا۔ پب جی اس وقت دُنیا کی دوسری سب سے زیادہ کھیلی جانے والی گیم ہے۔ اسے جنوبی کوریا کی بلیو ہول نامی کمپنی نے 2017ء میں لانچ کیا تھا۔ یہ گیم پہلے تین ماہ میں ہی اتنی مشہور ہوئی کہ اسے تین کروڑ لوگ اپنا چکے تھے۔ فی الوقت یہ سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کما رہی ہے اور اسے دُنیا میں پچاس کروڑ لوگ ڈاؤن لوڈ کر چکے ہیں۔ دُنیا میں ایک وقت میں کم از کم چار کروڑ لوگ ہر وقت آن لائن ہو کر یہ گیم کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اس گیم نے ہر قسم کے معروف ایوارڈ بھی جیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ مار دھاڑ، فائرنگ، تشدد اور قتلِ عام پر مبنی گیم ہے، جس میں دو سے لے کر ایک سو تک لوگ پیراشوٹ سے جنگ کے میدان میں اترتے ہیں۔ ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ انٹرنیٹ سے منسلک ہو کر ایک گھنٹے تک ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں اور آخر میں جو شخص زندہ بچ جاتا ہے، وہ فاتح قرار پاتا ہے۔ یہ آن لائن نیٹ ورکنگ گیمنگ کی جدید شکل ہے، جس میں پلیئرز ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔ گیم کی وجہ شہرت اس کے اعلیٰ گرافکس، ساؤنڈ اور گیمنگ اسٹوری ہے۔ گیم میں ہر قسم کا جدید اسلحہ استعمال کیا گیا ہے اور آئے روز نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے نئے سے نئے فیچر شامل کئے جاتے ہیں۔ یہ گیم بنیادی طور پر 16 برس سے زائد عمر کے بچوں کے لئے بنائی گئی ہے، لیکن انٹرنیٹ پر چونکہ کسی قسم کی روک نہیں لگائی جاسکتی، اس لئے آٹھ برس کا بچہ بھی اسے کھیل رہا ہوتا ہے۔ اگرچہ پب جی ایک مزیدار گیم ہے لیکن اس کے عادی ہونے والوں کے ذہنی و جسمانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس سے کھیلنے والوں میں انتہائی جذباتی اور جارحانہ خیالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ مسلسل گھنٹوں بیٹھ کر پب جی اور اس نوعیت کی دوسرے نقصان دہ گیمز کھیلنے سے بچوں کے ذہنی و جسمانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور آنکھوں کی بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ پب جی ایک ایسی گیم جس میں کھلاڑی بنا کسی ہتھیار کے اترتے ہیں اور گیم کے اندر ہتھیار شیلڈ گاڑیاں اور دیگر چیزیں حاصل کرکے اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔ 2018ء میں کمائی کے معاملے میں یہ گیم پہلے نمبر پر رہی۔ اس گیم میں دو ٹیموں کے کھلاڑی جہاز سے زمین پر اتر کر پہلے اسلحہ تلاش کرتے ہیں اور پھر سامنے والے کھلاڑی پر فائرنگ کرکے مارتے ہیں۔ صحتِ انسانی کے لئے مضرت رساں پب جی گیم ہر کس و ناکس کے لئے انتہائی مقبول گیمز بن گئی ہے۔ گیم بنانے والی کمپنی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس گیم میں موجود اینی میشن کی روشنی میں نکلنے والی شعاعیں ان لوگوں کو مرگی کے عارضہ کا شکار بناتی ہیں، جو یہ گیم کثرت سے کھیلتے ہیں۔ نیز ہر طرح کے ویڈیو گیمز سے آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں، کیونکہ اس میں آنکھوں کی حرکت تیز ہوجاتی ہے اور موبائل اسکرین سے مقناطیسی لہروں کا نکلنا بھی آنکھوں کے لئے مضر ثابت ہوتا ہے۔ پب جی گیم کھیلنے والوں کو نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ اس میں گروپ کی شکل میں دوسروں کو قتل اور ان کی املاک پر قبضہ کرکے نیز دوسروں کو بے انتہا زدوکوب کرکے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ مکمل اختتام تک گیم کھیلنے والے بچوں کو جرائم کے نت نئے طریقے سوجتے ہیں۔ بچوں کا سادہ ذہن جرائم کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ یہ گیم خون خرابہ کا باعث بنتی ہے۔ گیم کھیلنے والے بچوں کو ہر طرح کے ہتھیار بندوق اور گن کے نام ازبر ہوجاتے ہیں۔ نیز اس گیم میں منشیات کا استعمال و گروپوں کے درمیان لڑائی، تشدد اور ناشائستہ الفاظ کا خوب استعمال ہوتا ہے۔ یہ گیم منشیات کی لت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ تشدد اس کی رگ رگ میں بھر جاتا ہے۔ جذبات میں شدت پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ مذکورہ سطور سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پب جی ویڈیو گیمز کس قدر نقصان رساں اور ہلاکت خیز ہے، لیکن ہمارے بچے اور نوجوانوں کو اس کی ذرا بھی فکر نہیں اور نہ ہی والدین کو احساس ذمہ داری ہے، والدین کو معلوم ہونا چاہئے کہ پب جی گیم بچوں کی جسمانی اور اخلاقی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے، نیز ان کی تعلیم و تربیت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، تشدد کا رجحان ان کے اندر اسی قسم کے گیمز کے سبب بڑھتا جارہا ہے، لہٰذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ہاتھ میں ہرگز موبائل فون نہ دیں اور ان کے اندر زیادہ سے زیادہ دینی و دنیوی تعلیم کا شوق پیدا کریں اور وہ اس قسم کے فضول اور مضر صحت گیمز میں اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کریں اور حکومت کو چاہئے کہ اس گیم پر پابندی عائد کرے۔