Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

مکئی کا مہنگا ہائبرڈ سیڈ کسان کی پہنچ سے دور

شاہد مقصود سرویا
زراعت کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ کھیتی باڑی انسان کا قدیمی پیشہ ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو چار موسموں سے نوازا ہے جس کے باعث یہاں کی آب و ہوا مختلف فصلات اور پیڑ پودوں کے لئے نہایت موزوں ہے۔ گندم کی کاشت تو جیسے تیسے کسان نے مکمل کرلی تھی، اب بہار یہ مکئی کی کاشت کا وقت ہے۔ کسان سال میں مکئی کی دو فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ ماہرین زراعت کے مطابق 15 جولائی تا 15 اگست موسمی جبکہ 15 جنوری تا آخر فروری بہار یہ مکئی کی کاشت کا مناسب وقت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے جب بھی ملک میں کسی فصل کی کاشت کا وقت آتا ہے تو ناصرف کھادوں کا بحران سر اٹھا لیتا ہے بلکہ پرائیویٹ سیڈ کمپنیاں مہنگے داموں سیڈ بیچ کر کسان کو معاشی مسائل سے دوچار کرتی ہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں مکئی کے ہائبرڈ بیج کے دس کلو کے تھیلے کی قیمت 10 سے 12 ہزار روپے ہے۔ ہر سال اس میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ملک میں مکئی کی روایتی اقسام 35 سے 40 من فی ایکڑ کی پیداواری صلاحیت کی حامل ہیں جبکہ ہائبرڈ اقسام سے 100 سے 120 من فی ایکڑ تک پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ پنجاب کے ترقی پسند اور نہری علاقوں کے کاشتکار اناج کے لئے ہائبرڈ اقسام ہی کاشت کرتے ہیں۔ ملک میں ہر سال بہاریہ مکئی میں ہائبرڈ اقسام کے رقبہ میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب کپاس کاشت کرنے والے علاقوں میں بھی کسان نے مکئی کی کاشت شروع کردی ہے۔ کپاس پر تحقیق کرنے والے ادارے تاحال ایسے بیج تیار کرنے میں ناکام ہیں جو ناصرف زیادہ پیداوار دے سکیں بلکہ گلابی سنڈی کے خلاف قوتِ مدافعت بھی رکھتے ہوں۔ ہمارے کسان نے کپاس کاشت کرکے بہت نقصان اٹھایا ہے اب وہ کپاس کے بجائے مکئی کاشت کررہا ہے۔
ملک میں گندم اور چاول کے بعد مکئی سب سے زیادہ رقبے پر کاشت ہونے والی زرعی جنس ہے۔ مکئی کی کاشت میں پنجاب پہلے، خیبرپختونخوا دوسرے جبکہ سندھ اور بلوچستان تیسرے نمبر پر ہیں۔ پنجاب میں موسمی مکئی قریباً 6 لاکھ 21 ہزار ہیکڑ رقبہ پر جبکہ بہاریہ مکئی 2 لاکھ 25 ہزار ہیکڑ رقبے پر کاشت ہوتی ہے لیکن پھر بھی ہم اس کی اہمیت سے انکاری ہیں۔ ایک طرف ہمارے ملک میں زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے تو دوسری طرف ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود تیل دار اجناس کی پیداوار بہتر بنانے میں مناسب اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔ پولٹری پاکستان کی سب سے بڑی ایگروبیس صنعت ہے۔ پولٹری کی صنعت میں فیڈ کی تیاری کے لئے مکئی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کا قریباً 60 فیصد استعمال پولٹری، جانوروں کی خوراک اور چار فیصد بیج کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
ملک میں چند سالوں سے مکئی کا بیج اس قدر مہنگا ہوچکا ہے کہ کسان کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں مکئی کے بیج پر تحقیق کے ادارے موجود ہیں تو پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہائبرڈ بیج درآمد کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ کیا ہمارے ادارے اس حوالے سے کام نہیں کرسکتے؟ حقیقت یہ ہے کہ ادارے تو موجود ہیں اور کام بھی کررہے ہیں مگر جان بوجھ کر انہیں اس حد تک نظرانداز کیا گیا کہ وہ کھل کر کام ہی نہیں کرسکے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان اپنی ضروریات کا 85 فیصد مکئی کا ہائبرڈ بیج ہابر سے درآمد کرتا ہے۔ ملک میں سالانہ 8 ارب روپے کا ہائبرڈ بیج درآمد ہورہا ہے۔ ذرائع کے مطابق 2019-20ء کے دوران 4 لاکھ 40 ہزار من مکئی کا ہائبرڈ بیج امریکا، تھائی لینڈ، ترکی اور بھارت سے درآمد کیا گیا۔
پاکستان میں مکئی پر ریسرچ کرنے کے لئے ساہیوال میں قائم تحقیقاتی ادارہ برائے مکئی، جوار و باجرہ 1940ء سے مکئی پر تحقیق کررہا ہے، مگر بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد اس کی تحقیقی سرگرمیاں معطل کردی گئیں، لیکن 1954ء میں اسے پھر سے تحقیق کی اجازت دی گئی، کیونکہ اس وقت امریکا میں بڑے پیمانے پر مجی کے ہائبرڈ بیج کاشت ہورہے تھے۔ امریکا مکئی کی پیداوار میں بھی دُنیا میں بہت آگے تھا، اسی وجہ سے اس ادارے کو مکئی کے ہائبرڈ بیج تیار کرنے کی اجازت دی گئی۔ 1966ء سے لے کر آج تک یہ ادارہ 43 ورائٹیاں تیار کر چکا ہے جس میں 21 ہائبرڈ ورائٹیاں شامل ہیں، جن کی پیداواری صلاحیت کسی بھی صورت ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کم نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تجارتی پیمانے پر مکئی کا زیادہ تر ہائبرڈ بیج پاکستان میں پیدا کیا جائے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں کسان کے لئے مشکلات پیدا کررہی ہیں۔ اربابِ اختیار کو اس حوالے سے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان تو 1966ء سے مکئی کے ہائبرڈ بیج تیار کررہا ہے لیکن ماضی کی حکومتوں نے اس حوالے سے توجہ نہیں دی۔ اربابِ اختیار سے ایک سوال ہے کہ ہمارے ادارے جب ملکی سطح پر مکئی کا ہائبرڈ بیج تیار کررہے تھے تو پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کیوں کی گئی؟ اگر ہم نے ہائبرڈ بیج باہر سے ہی درآمد کرنا تھے تو پھر ہائبرڈ بیجوں کی تحقیق پر اربوں روپے کیوں ضائع کئے گئے؟ کیا وزیراعظم عمران خان اور ان کے کسی زراعت کے مشیر کے پاس اس بات کا جواب ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل