Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

آبادی: جب بھوک بڑھے گی تو سوچیں گے؟

ضمیر آفاقی
ہمارے بنیادی مسائل کیا ہیں، اس پر ہم کچھ زیادہ سوچنا گوارا نہیں کرتے، شاید ہمیں شہرت زدہ ایشو زیادہ من بھاتے ہیں، کیونکہ ان سے میڈیا ہائپ ملتی ہے، لوگ واہ واہ کرتے ہیں، ورنہ کیا اس کا سب کو ادراک نہیں کہ اگر آبادی یوں ہی بڑھتی رہی اور اس کے بڑھنے کے حوالے سے ہم نے کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ ذرائع پیداوار کم پڑ جائیں اور لوگ ایک ٹکڑا روٹی اور ایک بوند پانی کے لئے لڑنا مرنا شروع ہوجائیں، ویسے لڑائی تو ابھی بھی ہورہی ہے، مگر ابھی اس کا پھیلاؤ کم ہے، اس لئے ہماری نظریں ادھر نہیں جا رہیں، یا پھر ہم دیکھنا ہی نہیں چاہتے، قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ گروہ، جتھوں اور گروپوں کا نہیں، لیکن ہماری پارلیمنٹ کو جو کام نہ کرنا ہو، اسے عوام کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے کہ عوامی رائے سے یہ کام کیا جائے گا۔ بھائی لوگو، عوام نے اپنی رائے دے کر ہی آپ کو اسمبلیوں میں بھیجا اور آپ کا کام ہے ملکی بڑے مسائل، جن سے عوامی زندگیاں جڑی ہوئی ہیں اور جنہوں نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے، اس پر فوری قانون سازی کی جائے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی ایک بہت بڑا مسئلہ ابھر کر سامنے آرہا ہے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہماری اسمبلیوں میں پہنچنے والے نابغوں میں اتنی جرأت ہے اور نہ ہی وژن کہ وہ اس طرح کے دائمی مسائل پر قانون سازی کرسکیں۔ پاکستان میں 60 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں، اس میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے جب کہ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ان دو مہینوں میں اور زیادہ بڑھ چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال ہماری آبادی میں قریباً 60 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ دیہات سے لوگ شہروں کی طرف رخ کررہے ہیں، جس سے شہروں پر بوجھ مزید بڑھ رہا ہے۔ کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہے، جس سے آئے روز مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ آبادی کے بڑھنے کے مسائل سے شہروں میں رہائش کے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور گھروں کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔معاشی عدم تحفظ و گرتے ہوئے معاشی حالات و غربت سے تنگ آئے ہوئے افراد میں خودکشی کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، بڑھتی آبادی بہت بڑا مسئلہ ہے، خاص کر پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشی حالات بہتر نہیں، بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ لوگ روٹی، کپڑا اور مکان کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ تعلیم اور صحت کی حالت زار کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ گھانا اور یوگینڈا کے ساتھ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جو صحت و تعلیم کو سب سے زیادہ نظرانداز کررہے ہیں، بین الاقوامی اداروں نے سماجی و معاشرتی ترقی مثلاً صحت، تعلیم اور غربت میں کمی کے عوامل میں بدترین کارکردگی دکھانے والے گھانا اور یوگینڈا جیسے ممالک کے ساتھ تین پست ترین سطح کے ممالک میں پاکستان کو شامل کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تینوں ممالک سماجی ترقی کی کم ترین سطح والے 69 ممالک میں بھی سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ بین الاقوامی اداروں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں آبادی پر قابو پانے کی جانب بھی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذہبی طور پر سرگرم ممالک ایران، مراکش اور انڈونیشیا نے اپنی آبادی کو قابو کرتے ہوئے صحت و تعلیم جیسے سماجی عوامل میں بہتری پیدا کی ہے، یہاں تک کہ بنگلادیش بھی بہتری کی جانب گامزن ہے تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کرسکتا؟ خاندانی منصوبہ بندی کی غرض سے وطن عزیز میں اربوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔ عوام کو خاندانی منصوبہ بندی کی ترغیب دینے کے لئے اخبارات اور ٹیلی وژن پر اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔ غیرملکی مالیاتی اداروں سے قرضے لئے جاتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود مثبت نتائج حاصل نہیں ہورہے۔ حکومتی اداروں اور مختلف این جی اوز کی طرف سے آبادی میں اضافے کو ملکی معیشت کے لئے نقصان دہ اور غربت میں بڑھوتری کی بڑی وجہ قرار دیا جارہا ہے، پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی ناکامی کی وجہ اس مسئلے کو سیاسی طور پر سنجیدگی سے نہ لینا، خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز میں عملے سمیت دیگر سہولتوں کی کمی اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں غلط تصورات کا رائج ہونا ہے۔ یونیسیف کے سروے کے مطابق ملک میں 30 فیصد خواتین فیملی پلاننگ کے بارے میں جانتی ہیں اور اس کے طریقے بھی اپنانا چاہتی ہیں، لیکن ناکامی اُس وقت شروع ہوتی ہے کہ جب وہ خاندانی منصوبہ بندی کے مرکز جاتی ہیں تو وہاں عملے سمیت دیگر سہولتوں کا فقدان ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں محکمہ خاندانی منصوبہ بندی پروگرام کا یہ حال ہے کہ ان کے موبائل یونٹ پتھروں پر کھڑے ہیں، یہاں جو عملہ تعینات ہے اسے خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے کوئی تربیت نہیں دی گئی، ناکامی کی ایک وجہ فیملی پلاننگ کے بارے میں درست آگہی نہ ہونا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت موثر تشہیری مہم کے ذریعے اس کا شعور اُجاگر کرے، آبادی میں اضافے کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے ساتھ کم آبادی کے فوائد بھی بتائے جائیں۔ اگر ہم پاکستان کی آبادی کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 1961ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی 9 کروڑ 33 لاکھ اور 20 ہزار تھی، جس میں سے 5 کروڑ 8 لاکھ 40 ہزار افراد مشرقی پاکستان میں بستے تھے جب کہ تازہ مردم شماری کے بعد تو آبادی 22 کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ماہرین کی رائے کے مطابق اگر آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو ملکی وسائل زیادہ آبادی کی کفالت نہیں کرسکیں گے۔ بلاشبہ ہمارے ہاں آبادی کی شرح افزائش دُنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ ہے۔ دوسرے اور تیسرے پنج سالہ منصوبوں کے ذریعے شرح پیدائش گھٹانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن خاندانی منصوبہ بندی پر اٹھنے والے اخراجات کے مقابلے میں نتائج حوصلہ افزا نہیں۔ 1950ء میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے 14 ویں نمبر پر تھا، اب ہمارا نمبر چھٹا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے 6 فیصد پر مشتمل ہے جب کہ دُنیا کی آبادی کا 23 فیصد ہے، اگر شرح افزائش اسی طرح رہی تو آئندہ چند برسوں میں آبادی 30 کروڑ سے بھی متجاوز ہوجائے گی۔ کیا یہ لمحہئ فکریہ نہیں اور کیا ہمیں آبادی پر قابو پانے کے لئے سوچ بچار نہیں کرنی چاہئے؟ سب کو آبادی میں توازن قائم رکھنے کے حوالے سے غوروفکر کرنا ہوگا، تاکہ پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی کی جانب گامزن ہوسکے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل