شیخ لیاقت علی
پاکستانی فلم نگری میں فلم ”انوکھی“ سے فلمی نغمہ نگاری کا آغاز کرنے والے مایہ ناز شاعر و فلمی نغمہ نگار فیاض ہاشمی اور پنجابی فلم ”چن دے“ سے اسی فلم نگری میں اپنی شاندار آواز کا جادو جگانے والی نامور نورجہاں کو ان سطور کے ذریعے خراجِ تحسین پیش خدمت ہے اور اُن نغمات کو اُجاگر کیا جارہا ہے جو فیاض ہاشمی نے تحریر کئے اور اُن نغمات کو نورجہاں نے اپنی خوبصورت آواز سے سجایا۔ محقیقین موسیقی اور مصنفین موسیقی کی تحقیق کے مطابق فیاض ہاشمی نے کسی بھی پاکستانی فلم کیلئے اپنا پہلا گیت ہدایتکار سبطین فاضلی کی نغمہ بار فلم ”دوپٹہ“ (ریلیز 31 جنوری 1952ء) کیلئے تحریر کیا تھا اور اس گیت کی طرز موسیقار فیروز نظامی نے بنائی تھی، گیت کے بول تھے
”مصیبت ہے بلا ہے اور میں ہوں“
معروف ریکارڈ کلیکٹر، محقق اور مصنف فیاض احمد اشعر کی کتاب ”پاکستانی اُردو فلمی گیتوں کا سفر“ کے صفحہ نمبر 38 پر صاحبِ کتاب نے اس گیت کے بارے میں کچھ یوں درج کیا ہے:
”اس گیت کا ریکارڈ جاری نہیں ہوا تھا اور نہ ہی یہ گیت ”دوپٹہ“ میں شامل تھا۔ یہ فیاض ہاشمی کا کسی بھی پاکستانی فلم کیلئے لکھا گیا پہلا گیت تھا۔“
قارئین کرام! کتاب میں اس گیت کے بولوں کے آگے سنگرز یا سنگر کا نام درج نہیں ہے۔
فیاض ہاشمی اور نورجہاں پہلی مرتبہ فلم ”بنجارن“ (ریلیز 14 ستمبر 1962ء) میں یکجا ہوئے۔ بنجارن حسن طارق کی ”نیند“ کے بعد بحیثیت ہدایتکار دوسری فلم ہے اور اسی فلم سے نامور شاعر مسرور انور فلمی دُنیا سے متعارف ہوئے۔ بانی نگار الیاس رشیدی نے اس فلم میں مہمان کے طور پر ایک منظر میں جھلک دکھلائی تھی۔ فیاض ہاشمی کے لکھے اس گیت کو نورجہاں نے موسیقار دیبوبھٹا چاریہ کی بنائی گئی دلکش طرز پر گایا اور فلم کی ہیروئن نیلو پر عمدگی سے فلمایا گیا اور بہت مشہور ہوا
نہ جانے کیسا سفر ہے میرا، جہاں ہے منزل وہی لٹیرا
برصغیر پاک و ہند کے معروف فلمساز و ہدایتکار ایس ایم یوسف نے پاکستان آ کر سب سے پہلے فلم ”سہیلی“ (1960) بنائی اور اس گولڈن جوبلی فلم میں اُن کا کامیاب اشتراک فیاض ہاشمی اور موسیقار اے حمید سے ہوا جو نہایت کامیاب رہا۔ ایس ایم یوسف کی فلم ”دُلہن“ (1963) میں میڈم نورجہاں نے فیاض ہاشمی کے لکھے ان گیتوں کو موسیقار رشید عطرے کی بنائی ہوئی طرزوں پر عمدگی سے گایا
سزا کے قابل ہیں اس لئے ہم
سجناں دوار آئے سکھی سولہ سنگھار کرے
بلما بہار آئی، سیاں بہار آئی (ہمراہ نذیر بیگم)
پاکستانی فلم نگری کے نامور عکاس رضا میر نے بحیثیت ہدایت کار پہلی فلم ”بیٹی“ (1964) بنائی۔ اس گھریلو، معاشرتی فلم میں فیاض ہاشمی نے ایک درد بھری لوری لکھی جسے میڈم نورجہاں نے بڑی اچھی طرح سے موسیقار دیبوبھٹہ چاریہ کی بنائی ہوئی اثرانگیز دُھن پر گایا اور یہ لوری فلم میں اداکارہ نیلو پر فلمائی گئی
رات کی پلکیں بھیگی ہوئی ہیں ٹوٹ رہے ہیں تارے اب تو آجا اب تو آ جا نندیا
مصنف و ہدایتکار نذیر اجمیری کی کامیاب گھریلو، معاشرتی اور سبق آموز فلم ”پیغام“ کے سارے گیت فیاض ہاشمی نے تحریر کئے تھے۔ موسیقار اے حمید تھے۔ نورجہاں نے اُن کی لکھی ایک نعت رسول مقبولؐ سمیت تین سولو گیت بڑی چاہت کے ساتھ گائے۔
رحم کر یارب محمد مصطفی کا واسطہ، مشکلیں آسان کر
محبت درد میں ڈوبا ہوا پیغام لے آئی
جا رے جا بے دردی تو کیا جانے پیار تو بڑا ہرجائی
تیری خاطر جل رہے ہیں کب سے پروانے پیار کیا ہے
ایس اے حافظ کی بحیثیت ہدایتکار پہلی فلم سال 1964ء کی عیدالفطر پر ریلیز ہوئی۔ فلم کی ہیروئن دیبا پر فیاض ہاشمی کا لکھا یہ المیہ گیت نورجہاں کا گایا فلمایا گیا:
اورے صنم دل یہ کیسے بتائے پیار میں میری ہوگئے اپنے پرائے
”توبہ“ نے کراچی سرکٹ میں شاندار گولڈن جوبلی منائی تھی، تمام ترنغمات اس ”توبہ“ کے لئے فیاض ہاشمی نے تحریر کئے تھے۔
ہدایتکار منشی دل کی فلم ”سرتاج“ (1965) میں فیاض ہاشمی کی لکھی ہوئی نعت رسول مقبولؐ کو نورجہاں نے انتہائی جسوع و خشوع کے ساتھ ادا کیا۔
دے صدقہ کملی والے، بگڑی بنا اے میرے خدا
سال 1965ء کی ریلیز ہدایتکار ایس اے حافظ کی فلم ”شبنم“ میں بھی یہ دونوں شخصیات اس شاندار گیت میں یکجا ہوئے جو اداکارہ رانی پر فلمایا گیا:
چن لیا میں نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا
پیار نہ کرنا یہ دل کہتا رہا کہنے دیا
اس گیت کے علاوہ فلم ”شبنم“ میں نورجہاں نے دو مزید گیت بھی فیاض ہاشمی کے گائے
او صنم رو رو کے تیری یاد میں ہم یوں ہی مریں گے
لے ڈوبا زندگی کو طوفان زندگی کا
اسی سال ایس اے حافظ کی ایک اور فلم ”صنم“ میں دونوں شخصیات اس گیت میں یکجا ہوئے: ٭چندا سے پیارا چاند ہمارا
ہدایتکار حسن طارق کی فلم ”تقدیر“ (1966) ان دونوں کا ساتھ اس گیت میں ہوا
جلمی دل کو جلا گٹیورے میں تو جل رہی
حسن طارق کی فلم ”سوال“ میں فیاض ہاشمی کے لکھے ان تین گیتوں کو نورجہاں نے عمدگی سے گایا، ان کی دُھنیں رشید عطرے نے موزوں کی تھیں۔
لٹ اُلجھی سلجھا جا رے بالم، میں نہ لگاؤں گی ہاتھ رے
ارے او بے مروت ارے او بے وفا، بتا دے کیا یہی ہے وفاؤں کا صلہ
ہماری اک خاموشی پہ قصہ غم سنائیں گے، آج نہیں تو کل
ہدایتکار آغا حسینی کی فلم ”کور نور“ کے تمام تر نغمات فیاض ہاشمی نے لکھے اور نورجہاں نے یہ دو خوبصورت نغمات گائے، موسیقی منظور اشرف نے دی
میری آرزو یہ شباب ہے، یہ خیال ہے
اداسیاں دل میں نوحہ گر ہیں کہ غم میں ڈوبی ہوئی صدا ہے
ایس ایم یوسف کی گھریلو، معاشرتی فلم ”ہونہار“ (1966) میں فیاض ہاشمی کے تمام تر نغمات تھے اور ان میں سے نورجہاں نے یہ گیت بڑے رچاؤ کے ساتھ گایا
جو ہم نے پیار سے دیکھا تو تم نے کیوں بُرا مانا
حسن طارق کی شاندار گولڈن جوبلی فلم ”دیور بھابھی“ کے سب نغمات فیاض ہاشمی نے لکھے اور صبیحہ خانم پہ فلمایا گیا، یہ نغمہ میڈم نورجہاں نے طربیہ رنگ میں اور المیہ رنگ میں الگ الگ گایا، موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے
میرا گھر میری جنت، یہ میرا آشیاں، میرا گھر میری جنت
رضا میر کی شاندار ہدایات سے سجی نغماتی و رومانی فلم ”لاکھوں میں ایک“ کے لئے فیاض ہاشمی نے آٹھ میں سے دو نغمات لکھے اور دونوں کو نورجہاں نے بہت ہی اعلیٰ طریقے سے گایا
چلو اچھا ہوا تم بھول گئے، اک بھول ہی تھا میرا پیار اُو ساجنا
اس نغمے کی اعلیٰ گائیکی کے صلے میں میڈم نورجہاں نے سال 1967ء کی بہترین گلوکارہ اور فیاض ہاشمی نے بہترین نغمہ نگار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا
راکھو لاج ہماری من مندر کے دیوتا
ایس ایم یوسف کی گھریلو، معاشرتی، نغماتی فلم ”شریک حیات“ کے سات نغمات میں سے فیاض ہاشمی نے تین نغمات لکھے تھے جن میں سے نورجہاں نے یہ مقبول نغمہ گایا، اے حمید نے موسیقی میں خوب گایا
تیرے لئے او جانِ جاں لاکھوں ستم اُٹھائیں گے
ہدایت کار آغا حسینی کی فلم ”ظالم“ کے نغمات فیاض ہاشمی نے لکھے تھے۔ ان میں یہ دو نغمات نورجہاں نے رشید عطرے کی کمپوزیشن میں طربیہ اور المیہ گائے
آنسو ہی ملے ہیں ہمیں زندگی میں
سید سلیمان کی فلم ”پیا ملن کی آس“ میں یہ دونوں اس گیت میں یکجا ہوئے جس کی طرز موسیقار سلیم اقبال نے بنائی
ہائے رے قسمت روٹھ گئی ہے آس
ہدایت کار احمد سرتاج کی فلم ”چودہویں صدی“ (1969) یہ دونوں ان دو نغمات میں یکجا ہوئے۔
جا ہرجائی، اے بے وفا جیسا نہ جلا جا ہرجائی جا ہرجائی
سُن رسیا، من بسیا ہو ہو سو سے نیناں ملا کے
موسیقار طافو کی پہلی اُردو فلم ”گرہستی“ (1971) فیاض ہاشمی اور نورجہاں کا ساتھ ان دو گیتوں میں ہوا۔
مجھے تم بھول نہ جانا، کبھی نظریں نہ چرانا
میرا نام شمبولین مجھے چھیڑا نہ کرو
سال 1971ء میں اسلم ڈار کی فلم ”مجرم کون“ میں ان دونوں کا اشتراک اس خوبصورت گیت میں ہوا جس کی دُھن کمال احمد نے بنائی
میرے محبوب میرے پیار کے قابل تو ہے
7 اپریل 1971ء کو رضا میر کی رومانوی، نغماتی فلم ”ناگ سنی“ ریلیز ہوئی، اس فلم کے لئے فیاض ہاشمی نے دو نغمات لکھے، جنہیں نورجہاں نے نثار بزمی کی بنائی ہوئی دلکش دھنوں پر نہایت خوبصورتی سے گایا
ساجنا رے جیا ترے نیناں برسے دُکھی من تجھ کو پکارے
سانورے! سانورے! موہے پربت نبھانا رے موہے پربت نبھانا رے
ہدایت کار حیدر کی فلم ”بدل گیا انسان“ (1975) میں یہ دونوں اس گیت میں ساتھ ہوئے، ماسٹر عبداللہ نے اس گیت کو کمپوز کیا
عجب دوستی ہے، عجب دشمنی ہے
ہدایت کار اسلم ڈار کی فلم ”سیاں اناڑی“ (1976) ان دونوں کا اشتراک اس ایک گیت میں ہوا جس کی دُھن ماسٹر رفیق علی نے بنائی۔
میں سولہ برس کی جب سے ہوئی، چولی لہنگا تنگ ہوا
ہدایت کار الطاف حسین کی پہلی اُردو فلم ”آوارہ“ (1977) کے تمام نغمات فیاض ہاشمی نے لکھے تھے اور نورجہاں نے اُن کے یہ گیت گائے، موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے۔
تن من تیرے نام پہ لکھ کے اے میرے دالدار
ساقیا ساقیا مرحبا مرحبا! آنکھوں سے تو جام پلا
اور فلم ”آوارہ“ ہی فیاض اور نورجہاں کے باہمی اشتراک کی آخری فلم ہے، فیاض ہاشمی 29 نومبر 2011ء کو کراچی میں وفات پا گئے اور نورجہاں کا بھی انتقال اسی کراچی میں 23 دسمبر 2000ء کو ہوا۔ دونوں شخصیات یہیں آسودہ خاک ہوئے۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے۔(آمین)