گلوبل ویلیج دُنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کو جسمانی یا ذہنی طور پر بدسلوکی کا سامنا اور انسانیت۔۔؟
اسلام نے 1400 سال پہلے عورتوں پرظلم کے خلاف جو آواز اٹھائی اس کی مثال لبرل، سیکولر، نام نہاد عالمی حقوق نسواں کے ٹھیکیدار پیش کرنے سے قاصر ہیں
انسانیت کی کوکھ ہر ظلم و تشدد سے بچ سکتی ہے اگر وہ تسلیم کر لے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا حقیقی ضامن ہے اور اس کے احکامات پر عمل کرے
کرن فاطمہ
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمؐ سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حُسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ تیری والدہ اور چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تیرے والد۔ (بخاری) اس روایت سے معلوم ہوا کہ باپ کے مقابلے میں ماں کی حیثیت و مرتبہ استحقاقِ خدمت میں تین گنا زیادہ ہے۔ اگر ماں کافر بھی ہو تو اس کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے۔ حضرت اسماء نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری والدہ اسلام سے نفرت کرتی ہیں، اب وہ میرے پاس آئی ہیں، وہ میرے حُسنِ سلوک کی مستحق ہیں یا نہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی ماں سے حُسنِ سلوک کرو۔(بخاری) رسول اکرمؐ نے ایک صحابیؓ کو والدہ کے بعد خالہ کے ساتھ ماں کے برابر حُسنِ سلوک کی تاکید فرمائی۔(مسند احمد)
خواتین پر ظلم و ستم کی روک تھام کے حوالے سے ہر سال 25 نومبر کو صنف ِنازک پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 25 نومبر 1960ء میں ہوا تھا، جب ڈومینکن ری پبلک کے جابر و ظالم حکمراں رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں کو قتل کردیا گیا تھا، جو ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کررہی تھیں۔ 1981ء سے عورتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کے خلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔ 17 دسمبر 1999ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دُنیا بھر کے مختلف ممالک میں 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا، انہیں ہر طرح کا تحفظ مہیا کرنا اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے ہرممکن کوشش کرنا ہے۔ اسی روز عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے 16 روزہ تقریبات کا بھی آغاز ہوتا ہے، جس کا اختتام 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر عمل میں آتا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عالمی تحریک کے باوجود دُنیا کے بہت سارے ممالک میں خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا پا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا کی 33 فیصد اور یورپ میں 12 سے 15 فیصد خواتین روزانہ ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ دُنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کو زندگی میں کبھی نہ کبھی جسمانی یا ذہنی طور پر بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحریک حقوقِ نسواں، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ہر سال صنف ِنازک پر جسمانی تشدد، نفسیاتی استحصال، غصب شدہ حقوق اور صنفی عصبیت کا نگر نگر واویلا کرتی ہے۔ عظیم الشان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں پُرتکلف سیمینارز کا انعقاد، اخبارات میں رنگین ضمیموں کی اشاعت، کانفرنسوں اور سمپوزیم میں بے نتیجہ مباحثے اور پھر سے ہر سال نئی قراردادوں کے لئے سفارشات اس عالمی دن کی لاحاصل روایات و رسومات کا حصہ ہیں، مگر تعصب کے دبیز پردوں کو چاک کرکے غیرجانبدارانہ طور پر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ اسلام نے 1400 سال پہلے عورتوں پر ظلم کے خلاف جو آواز اٹھائی ہے اور حقوقِ نسواں کے تحفظ کا جو آسمانی بل پیش کیا ہے اس کی مثال لبرل، سیکولر، نام نہاد عالمی ٹھیکیدار اور این جی اوز تاقیامت پیش کرنے سے قاصر ہیں اور رہیں گے۔
اسلام نے عورتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطا کیا؟ قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دُنیا کے سامنے حقوقِ نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت و مساوی نظام عمل پر عش عش کر اٹھے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوقِ نسواں کا علمبردار اور عدل و مساوات کا حقیقی ضامن ہے۔
آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوقِ نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقائق سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے کیونکہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعترافِ حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنف ِنازک کا نجات دہندہ اور حقوقِ نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا وہیں بطور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے گئے، بطور بہن، عورت کی وراثت کا حق بڑی ہی تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا رہے، وہ جنت کا حق دار ہوگا۔(ترمذی)
اسلام کی آمد سے پہلے بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت کا حق دار بھی ٹھہرایا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقا کے لئے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حُسنِ سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔
ارشاد ربانی ہے ”اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو، اور اللہ نے اس میں تمہارے لئے بہت بھلائی رکھی ہو۔“(سورہ نساء)
رسول اکرمؐ نے بیوی سے حُسنِ سلوک کی تلقین و تاکید فرمائی۔ احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اپنی ازواج مطہرات کی عملی طور پر بہت سے مواقع پر دل جوئی فرمائی۔ رسول اکرمؐ حضرت عائشہؓ کے ساتھ کبھی دوڑ لگا رہے ہیں اور کبھی ان کو صیشیوں کے کھیل (تفریح) سے محظوظ فرما رہے ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کے ساتھ سفر میں تھیں، فرماتی ہیں کہ میں اور آپؐ دوڑے، تو میں آگے نکل گئی تو پھر دوبارہ جب میں اور آپؐ دوڑے، تو آپؐ آگے نکل گئے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ اس کا بدلہ ہے تو پہلے آگے نکل گئی تھی۔ یعنی اب ہم برابر ہوگئے۔(ابو داؤد)
اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِِروشن کی طرح عیاں ہے کہ خواتین کے انفرادی حقوق، عائلی حقوق، ازدواجی، معاشی اور دیگر حقوق کو بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام ہی نے عورتوں کو عزت و تکریم عطا کی، عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار ہے، وہ اپنے نام جائیداد خرید سکتی ہے اور اپنی ملکیت میں رکھ سکتی ہے، اسے اپنے خاندان، خاوند اور دوسرے قریبی رشتے داروں سے وراثت میں حصہ ملتا ہے، جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے اسی طرح عورت کو خلع کے ذریعے نکاح تحلیل کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ اسلام نے انسان ہونے کی حیثیت سے مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیئے ہیں۔ جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمؐ نے خواتین کو جو حقوق دیئے ہیں ان کی پاسداری ہمارا اولین مذہبی فریضہ ہے۔