دن بہ دن جو میرے خوابوں میں کمی آتی ہے
آنکھ لگتی ہے نہ اب نیند کبھی آتی ہے
ہم فقیروں کو فقط عشق کا گر آتا ہے
ہم فقیروں کو کہاں جادو گری آتی ہے
اندر اندر ہی کہیں دور چلے جاتے ہیں
اس کو ہجرت، نہ مجھے دربدری آتی ہے
بند آنکھوں سے میں تصویریں بنا لیتا ہوں
میرے بچوں کو بھی یہ کوزہ گری آتی ہے
کیسے رستوں سے گرزتی ہے خدا خیر کرے
روز گھر میں مری بیٹی جو ڈری آتی ہے
یعنی میں پچھلے جنم میں کوئی شہزادہ تھا
میرے خوابوں میں جو ہر روز پری آتی ہے
—————–
ساجد رضا خان