Tuesday, July 29, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سائبر کرائم اور پاکستان

لڑکا اگر لڑکی کو بلیک میل کرے تو اسی کو ہراسمنٹ سمجھا جاتا ہے مگر لڑکیاں بھی اس جرم میں شامل ہو کر لڑکوں کو بلیک میل کررہی ہیں اس کو پتا نہیں کب ہراسمنٹ سمجھا جائے گا

زوہیب رمضان بھٹی

کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے کی گئی واردات یا فراڈ کو سائبر کرائم کہا جاتا ہے، بلکہ اسمارٹ فون بھی آج کل مکمل کمپیوٹر ہے اور اس سے کیا گیا فراڈ بھی سائبر کرائم گردانا جاتا ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال بہت زیادہ ہے لیکن صرف استعمال جب کہ ایکسپرٹی لیول خاصا نیچے ہے۔ یہاں چند ایک مثالوں کے علاوہ انٹرنیٹ کو لوگ زیادہ تر معلومات یا ٹائم پاس کے لئے استعمال کرتے ہیں، اس لئے بہت کم ایسے ہوں گے جو انٹرنیٹ کے ذریعے ہیکنگ، فزنگ یا اسپیمنگ کرتے ہیں۔ ہیکنگ، فزنگ اور اسپیمنگ بھی واردات کے لئے استعمال کی جائے تو کرائم ہے اور کرائم کرنے کے لئے ان تمام میں بہت زیادہ مہارت درکار ہے، جس کو پاکستان میں سائبر کرائم سمجھا جاتا ہے وہ صرف لڑکے کا لڑکی بن کر فیس بک پر کسی کو تنگ یا بلیک میل کرنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے سائبر کرائمرز دیگر کرائمز میں ملوث ہوتے ہیں۔ انہیں اس کام میں مہینوں لگ جاتے اور واردات بھی بڑی کرتے ہیں، جیسے کہ دفاعی اداروں کے ڈیٹا بیس یا پھر اہم کمپیوٹرز تک رسائی یا سارے حصار توڑ کر اپنے پاس کمپیوٹرز ڈیٹا لانا۔
پاکستان میں اس پائے کے بہت کم ہیکرز ہیں، کامیاب فزنگ کرنے والے بھی کم ہیں، چونکہ یہاں زیادہ تر کرائم چھوٹی سطح کے ہوتے ہیں، چھوٹی موٹی بلیک میلنگ یا چھوٹی وارداتوں کی حد تک۔ پاکستان میں ایف آئی اے کا ایک ذیلی ادارہ سائبر کرائم کے خلاف بنایا گیا تھا مگر وہاں بھی لوگ اتنے ایکسپرٹ نہیں کہ کسی بڑی واردات یا کرائم کو فوری پکڑ سکیں، سب سے زیادہ کیسز فیس بک پر کسی لڑکے کا لڑکی کی تصویر لگا کر جعلی آئی ڈی بنا کر اسے بدنام یا پھر تنگ کرنے یا لڑکی کے ہی کسی قریبی جاننے والے کے اس کی آئی ڈی تک پہنچنے اور غلط پروپیگنڈے یا پھر بلیک میل کرنے کے سامنے آتے ہیں۔ یہ تمام کارروائی کوئی قریبی انتقاماً کرتا ہے، اس لئے آئی ڈی کا پاس ورڈ حاصل کرنا یا دوست رشتے داروں تک پہنچنا آسان ہوتا ہے، یہ سائبر کرائم تو ہے مگر ہیکنگ نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اینٹی سائبر کرائم کو ساری تفصیلات خود فراہم کرنی اور ثبوت بھی خود دینے ہوتے ہیں، فیس بک کے سارے یو آر ایلز آپ خود دیتے ہیں اور اس کے بعد طویل انتظار۔ ایف آئی اے یہ سارا ڈیٹا فیس بک انتظامیہ کو دیتا ہے اور وہاں سے پاکستان میں ایف آئی اے کو جواب ایک ماہ سے چالیس دن تک آتا ہے۔ بہت سے ممالک کو فیس بک انتظامیہ گھنٹوں میں اور کچھ کو تو چند دنوں میں جواب دیتی ہے مگر پاکستان کو انتظار کیوں کرنا پڑتا ہے؟ اس کی بہت سی وجوہ ہوں گی جو ایف آئی اے کا سائبر کرائم ڈپارٹمنٹ بہتر بتا سکتا ہے، لیکن بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اس ڈپارٹمنٹ کے پاس اسٹاف اتنا ماہر نہیں اور دوسرا بے حد کم ہے، اس کے علاوہ ایف آئی اے کا نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائم (این آر ۳ سی) بھی ہے جو مختلف سروسز کے لئے ہے، جیسا کہ کمپیوٹر فرانزک۔
یہ ادارہ کمپیوٹر فرانزک کرتا ہے، جیسے کسی کمپیوٹر سے کوئی غلط کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا جارہا ہو، کوئی آن لائن فراڈ، بذریعہ انٹرنیٹ کوئی غلط قسم کی چیز بیچی یا خریدی جا رہی ہو، متنازع تصاویر یا ویڈیوز کا دھندا کیا جارہا ہو، ایسے کسی بھی قسم کے کام کی روک تھام کے لئے کمپیوٹر فرانزک سے پتا چلایا اور دیکھا جاتا ہے کہ کسی مخصوص کمپیوٹر سے ان میں سے اگر کوئی کام سرانجام دیا گیا ہے تو اس کی لوکیشن کیا ہے، جرم کی نوعیت کیا ہے۔
ایف آئی اے نے اس میں کافی کام کیا ہے مگر بہت ساری ویب سائٹس اور خرید و فروخت خفیہ طریقے سے یا سامنے جاری ہے۔ نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائم (این آر ۳ سی) کو موبائل فرانزک کے لئے بھی تربیت دی گئی ہے۔ اسمارٹ فون سے بہت سارے کرائمز کئے جارہے ہیں جن میں بذریعہ ایپ کالز اور میسج بلیک میل کرنا، موبائل سے ویڈیو بنانا اور پھر بلیک میل کرنا، کسی کی کال ریکارڈ کرنا اور پھر بلیک میل کرنا، موبائل کے ذریعے ای میلز کرکے فراڈ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
موبائل فرانزک کے ذریعے پتا چلایا جاسکتا ہے کہ اس موبائل سے کب اور کہاں سے کیا کیا گیا۔ کیمرے سے کون سی ویڈیو بنائی اور پھر ڈیلیٹ کردی یا شیئر کی گئی۔ ویڈیو فرانزک کے ذریعے کسی ویڈیو کی وہ تفصیلات بھی نکالی جاسکتی ہیں جو اوجھل ہوں۔ جیسے سی سی ٹی وی یا کم ریزولوشن کی ویڈیو کی ڈیٹیل نکالنا، کسی تصویریا ویڈیو کا پتا چلانا کہ اس میں کتنی سچائی ہے۔ یہ ادارہ فعال ہوتا جارہا ہے مگر ٹیم کی کمی ہے اور بہت سے پہلوؤں پر کام کرنا ابھی باقی ہے۔
اس ادارے نے بہت اہم کام کئے اور بہت سی اچیومنٹس بھی ہیں، جن پر پھر بات ہوگی۔ روزبروز واردات کرنے والے خود کو بہتر سے بہتر کررہے ہیں، نت نئے طریقوں سے سائبر کرائم بڑھ رہے ہیں۔ چھوٹی بلیک میلنگ یا فراڈ یا میسج، کمنٹ کے ذریعے ہراسمنٹ کے واقعات بے شمار ہیں اور زیادہ کرائم یہی ہے جو جاننے والے ہی کرتے ہیں۔ اس میں رسپانس سینٹر کو اپنے ایکسپرٹس کے ذریعے بھی مجرم پکڑنے چاہئیں نہ کہ فیس بک کے رسپانس کا انتظار کیا جائے۔ اگر کوئی کمپلین کرتا ہے تو اسے سارے ثبوت دینے پڑتے ہیں، اس لئے اسے چاہئے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی فراڈ یا بلیک میلنگ کررہا ہے تو وہ ساری ایکٹیوٹی کے اسکرین شاٹس لے یا کال ریکارڈ کرے، تب ہی اس کی مدد کی جاسکے گی، ورنہ مجرم کو سزا دلوانے میں دیر ہی ہوگی یا اس کا پکڑا جانا ناممکن ہوجائے۔
ایسی شکایات میں ایک اور چیز ضروری ہوتی ہے، کہ آپ جس کے خلاف کمپلین کررہے ہیں وہ خود ملوث نہ ہو بلکہ اس کی آئی ڈی یا تصویر کا استعمال کوئی دوسرا شخص کررہا ہو۔ ایسے میں رسپانس سینٹر کو زیادہ وقت لگتا ہے۔ کمپلین کرنے والا اس آئی ڈی کے مکمل یو آر ایلز دیتا ہے پھر ایف آئی اے وہ یو آر ایلز خود بھی زیک کرتا اور فیس بک کو بھی بھیجتا ہے۔ نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائم (این آر ۳ سی) کو فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر ویب سائٹس کی انتظامیہ سے رسائی بھی مزید موثر کرنے کی ضرورت ہے۔ پراکسی کے استعمال سے بہت ساری ویب سائٹس تک رسائی ہوتی ہے پی ٹی اے بھی اس میں کئی بار ناکام دکھائی دی۔ اس کے علاوہ ملٹی چینلز کا استعمال کرکے بھی وارداتیں کی جارہی ہیں، تاکہ اصل مجرم تک پہنچنے میں تاخیر ہو مگر یہ سب پائے کے سائبر کرائمرز کرتے ہیں۔
یہاں لڑکا اگر لڑکی کو بلیک میل کرے تو اسی کو ہراسمنٹ سمجھا جاتا ہے مگر لڑکیاں بھی اس جرم میں شامل ہو کر لڑکوں کو بلیک میل کررہی ہیں اس کو پتا نہیں کب ہراسمنٹ سمجھا جائے گا۔ سائبر کرائم میں بہت ساری وارداتیں اس لئے ہوتی ہیں کہ آپ خود ساری معلومات انجانے یا کسی لالچ میں خود پلیٹ میں رکھ کر دیتے ہیں۔ اس کو ہیکنگ کا نام نہ دیں بلکہ خود کو یاد دہانی کروایا کریں کہ اپنی ذاتی معلومات تک رسائی آپ نے کسے دینی ہے اور کسے نہیں۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل