Tuesday, July 29, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

’’بسنت‘‘ پر اعتراض کیوں؟

محمد ریاض علیمی

وکی پیڈیا کے مطابق بسنت (بسنٹ ) یا بسنت پن چمی موسم بہار میں منائے جانے والا بنیادی طور پر ہندوؤں کا ایک تہوار ہے۔ بسنت کا سنسکرت میں لفظی مطلب بہار کا ہے۔ اسے بسنت پن چمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ماگھ کی پانچ تاریخ کو منایا جاتا ہے، جو عموماً فروری کے مہینے میں آتا ہے۔ ویدوں میں لکھا ہے یہ سرسوتی دیوی کا دن ہے۔ اس دن خوشی منائی جاتی ہے اور سرسوتی دیوی کی پوجا کی جاتی ہے۔ خوشی کے اظہار کے لئے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں اور پتنگیں اڑائی جاتی ہیں اور موسیقی سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ بسنت ہندوؤں اور سکھوں کا مشترکہ تہوار ہے۔ ایک مکتب فکر بسنت کو ایک موسمی نہیں بلکہ مذہبی تہوار سمجھتا ہے، چونکہ اس کا ذکر پرانی ہندو مذہبی کتب میں آتا ہے۔ پرانی کتابوں کے مطابق پتنگ پر دو آنکھیں یا دوسرے کی شکلیں بنا کر آسمان سے نازل ہونے والی بلائیں دور کی جاتی ہیں۔ یہ خیالات جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں جیسے سنگاپور، تھائی لینڈ وغیرہ۔ بسنت منانے کے نتیجے میں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ پتنگ کی ڈور ہے جس سے گلے کٹ جاتے ہیں۔ کچھ بچے پتنگ بازی کرتے ہوئے چھت سے بھی گر جاتے ہیں اور کچھ ان گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں جو پتنگ باز چلاتے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر ہر سال بسنت کے موقع پر پاکستانی عدالتوں میں اس تہوار کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ بسنت کے موقع پر دھاتی ڈور کے استعمال سے بعض ہلاکتوں کے باعث پنجاب حکومت نے چند برس قبل بسنت کے تہوار اور اس موقع پر پتنگیں اڑانے پر پابندی عائد کردی تھی۔ 2012ء میں اس پابندی کو لاہور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا جوکہ 2018ء تک بحال رہی لیکن چند دنوں پہلے ہی پنجاب حکومت نے کئی سال سے بسنت پر عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا اور فروری 2019ء میں بسنت منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ہے وہ حقیقی پس منظر جس کی وجہ سے بسنت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ لیکن آج خبروں اور ٹی وی شوز میں یہ بحث اٹھائی جارہی ہے کہ بسنت پر پابندی لگا کر اقلیتوں کو اپنا مذہبی تہوار منانے نہیں دیا جارہا۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان تنگ نظری کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اقلیتوں کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ اس تہوار پر پابندی لگانے کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ یہ ایک خونی تہوار کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ جانی نقصان کی وجہ سے اس پر پابندی لگائی گئی تھی۔ لیکن آج پابندی اٹھانے کے لئے ان نقصانات کو زیربحث اور زیرغور لانے کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ اس کے نقصانات پر بات کرنے کے بجائے بحث یہ کی جارہی ہے کہ کیا اسلام بسنت منانے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا اسلام میں پتنگ اڑانے کی اجازت ہے؟ پاکستان میں اقلیتوں کی آزادی پر پابندی کیوں لگائی جارہی ہے؟ کیا پاکستان میں اقلیتوں کو اپنا مذہبی تہوار منانے کا کوئی حق نہیں ہے؟ اس طرح سوالات اٹھا کر بھولے بھالے لوگوں کے ذہنوں کو الجھایا جارہا ہے۔ یہ حکمرانوں اور میڈیا کی انتہائی گھناؤنی سازش ہے کہ بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں اور اصل حقیقت سے اس کا رُخ پھیر دیتے ہیں۔ یہ ایک بالکل الگ بحث ہے کہ اسلام بسنت منانے یا پتنگ اڑانے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ اگر دیتا ہے تو اس کی حدود و قیود کیا ہیں؟ اگر نہیں دیتا تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟ یہ سب باتیں بعد کی ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس تہوار سے کتنا نقصان ہوتا ہے، کئی ماؤں کی گودیں اجڑ جاتی ہیں، معصوم بچوں کے گلے کٹ جاتے ہیں، کئی لوگ ہمیشہ کے لئے معذور ہوجاتے ہیں، درجنوں گھروں میں صف ماتم بچھ جاتا ہے، ساری ساری رات فائرنگ کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں جس سے لوگوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی نے ایک پروگرام اس موضوع پر تو کرلیا اسلام میں بسنت منانے اور پتنگ اڑانے کی اجازت ہے یا نہیں؟ لیکن اس پر بھی پروگرام کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ گزشتہ سالوں میں اس تہوار کی وجہ سے کتنی اموات ہوئی ہیں اور کتنے لوگ اپنے گھر کا واحد سہارا تھے جو آج بے سہارا ہیں۔ کتنے معصوم بچوں کے گلے کٹے تھے۔ کتنے لوگ ہمیشہ کے لئے معذور ہوگئے تھے۔ صرف ایک طبقے کی مسرت و شادمانی اور لاابالی پن نے کتنے لوگوں کے گھروں میں صف ماتم بچھائی تھی۔ ٹی وی اینکر لوگوں کو یہ سب کچھ بتانے کے بعد اس پر بحث کریں کہ کیا اس تہوار کی اجازت ہونی چاہئے یا نہیں؟ اس کے نقصانات کو بالائے طاق رکھ کر اسلام اور مسلمانوں کو ہدف تنقید نہ بنائیں۔
اسلام دشمنوں کا ہمیشہ یہ وتیرہ رہا ہے کہ معاملے کی حقیقت کو الجھا کر اس کا رُخ پھیر دیتے ہیں۔ بسنت درحقیقت ایک ہندووانہ تہوار ہے لیکن اسلام دشمنوں نے اس تہوار کو مسلمانوں کی ثقافت کا آئینہ دار بنا دیا اور بھولے بھالے مسلمانوں نے اس تہوار کو بخوشی قبول کرلیا۔ اسی لئے اس تہوار کو پنجاب کی ثقافت کا آئینہ دار کہہ کر حکومتی سطح پر منانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں معاملہ غیرمسلموں کے مذہبی تہوار پر پابندی کا نہیں بلکہ ان کے تہوار کو مسلمانوں پر چسپاں کرنے کا ہے جو کہ ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے ایک حد مقرر کی ہے اور اسی حد میں رہ کر غیرمسلم اپنی عبادات کرسکتے ہیں اور اپنا مذہبی تہوار بھی منا سکتے ہیں۔ اس تہوار کو ہندوؤں کا تہوار ہی رہنے دیا جائے، خوامخواہ مسلمانوں کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔ نیز اس تہوار یا کسی بھی تہوار کی آڑ میں فحاشی و عریانی کی اجازت اور جان و مال کے ضیاع کی اجازت کوئی بھی مسلم اور مہذب معاشرہ نہیں دے سکتا۔ لہٰذا مروجہ خونی بسنت کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ رہی بات وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کی کہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان عیدالاضحی مناتے ہیں تو اس موقع پر بھی کئی لوگ زخمی ہوجاتے ہیں اور ان کی جانیں چلی جاتی ہیں، لہٰذا اس پر بھی پابندی ہونی چاہئے۔ اس جاہلانہ قیاس پر فیاض الحسن چوہان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ انہوں نے ایک ہندووانہ تہوار کو قرآن پاک کے حکم اور نبی علیہ السلام کی سنت سے قیاس کیا ہے۔ یقینی طور پر یہ اسلام دشمنی ہے اور انتہائی درجہ کی ہٹ دھرمی ہے۔ اسلام کا معاملہ بہت حساس ہے، اگر کسی بات کا علم نہ ہو تو خاموش رہنا چاہئے۔ عقل کے گھوڑے نہیں دوڑانے چاہئیں بلکہ کسی اہل علم سے رابطہ کرنا چاہئے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل