ڈاکٹر ساجد خاکوانی
ایک سال بھر کی عمر عزیز گویا ایک پگھلتی ہوئی برف کی سل ہے جو ہر ہر لمحے اپنے وجود سے عدم کی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ فرد کے سال کا آغاز تو اس کی پیدائش سے ہی ہوجاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ہر فرد کیلئے الگ الگ سے کیلنڈر بنانا تو ممکن نہیں، پس صدیوں سے انسان نے اپنے اجتماعی نظام کی بارآوری کیلئے ایک سال کی مدت کو اپنا رکھا ہے، اسی کیلنڈر سے مہینوں، ہفتوں اور دنوں کا حساب بھی چلتا ہے، یہیں سے موسموں کے تغیر کو بھی تخمین کرلیا جاتا ہے اور یہیں سے فصلوں، نسلوں اور قوموں کی پختگی و عروج و زوال کے دورانیے کا فیصلہ بھی کرلیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے کم و بیش تمام مذاہب بھی اپنا اپنا جداگانہ کلینڈر رکھتے ہیں اور اسی کیلنڈر کے مطابق جہاں ان کے مذہبی سال کا آغاز ہوتا ہے وہیں ان کے جملہ مذہبی تہوار بھی اسی کیلنڈر کی تاریخوں کے تحت استوار کئے جاتے ہیں۔ تہذیبیں چونکہ ہمیشہ سے مذاہب کے زیراثر رہی ہیں اس لئے اگر کہیں کسی تہذیب نے اپنا الگ سے بھی کیلنڈر بنایا تو وہ مذہب کی گرفت سے نکل نہ سکا۔ جیسے کہ یورپی سیکولر تہذیب نے اگرچہ اپنے آپ کو مذہب سے جدا کرنے کا نعرہ لگایا اور علیحدہ کیلنڈر بھی ترتیب دیا لیکن اسے مذہب عیسائیت کے اثرات سے بچانہ سکے۔ چنانچہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد اور حکومتیں بھی پوری دنیا میں اس وقت عیسوی کیلنڈر کو رائج کیے ہوئے ہیں اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات چونکہ مسلمانوں کے پاس ہیں اور وہ بھی اسی طرح دین اسلام کے سچے نبی تھے جس طرح باقی کل انبیاء علیہم السلام بشمول محسن انسانیت خاتم الانبیاء ﷺ تھے اسی لئے یہ کیلنڈر بھی کلیۃ اسلامی کیلنڈر ہے۔ قرآن مجید نے برملا دیگر مذاہب کو اپنی مشترکات کی طرف دعوت دی ہے اس لئے یہ ایک خوش آئند امر ہے سال عیسوی مسلمانوں اور مذہب مسیحی کے درمیان ایک قدر مشترک ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا کہیٰٓاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ(۸۴:۶) ترجمہ:’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے اور اس (اپنے رب) سے ملنے والا ہے‘‘۔ ایک حدیث نبویﷺ کے مطابق انسان اپنی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے اور اس کی مدت حیات لکھ دی جاتی ہے۔ چنانچہ انسان اپنے انجام کی اطلاع کے ساتھ اپنے آغاز کا افتتاح کرتا ہے۔ بچپن، لڑکپن، شباب، ادھیڑ عمر اور پھر بڑھاپا انسانی زندگی کے عمومی مراحل ہیں جو سالوں پر محیط ہیں۔ بڑھاپے کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا کہ وَ مَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ(۳۶:۶۸)ترجمہ:’’جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم الٹ ہی دیتے ہیں، کیا (یہ دیکھ کر) انہیں عقل نہیں آتی‘‘۔ یعنی بڑھاپے کی حالت میں انسانی نفسیات بچپنے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ سالوں کا پیمانہ انسانی عمر کو ناپنے کے کام بھی آتا ہے۔ پس بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ امتوں میں لمبی لمبی عمریں ہوا کرتی تھیں، جیسے حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال عمر پائی تھی۔ ایک روایت کے مطابق گزشتہ امتوں میں ایک نبی علیہ السلام کا گزر ایسی عورت پر ہوا جو کسی قبر پر بیٹھی رو رہی تھی، اس نبی علیہ السلام نے وجہ پوچھی تو اس بڑھیا نے کہا کہ اس کا چار سو سالہ جوان بیٹا فوت ہوگیا ہے اور وہ ساٹھ سال سے یہاں بیٹھی رو رہی ہے۔ وہ نبی علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا کہ ایک ایسی امت بھی آئے گی جس کی کل انفرادی مدت حیات ہی ساٹھ سالوں پر محیط ہوگی اور اس امت کے لوگ لمبے لمبے منصوبے اور اونچی اونچی عمارات بنائیں گے۔ نبی علیہ السلام کی اس سچی پیشین گوئی پر وہ بوڑھی خاتون بڑی حیران اور ششدر ہوئی کہ اتنی چھوٹی اور مختصر عمر اور اتنی لمبی لمبی امیدیں۔ آج کی نسل انسانی کا تعلق اسی قبیل سے ہے۔
محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ’’جس کا آج اس کے گزشتہ کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہوگیا‘‘۔ ’’سال‘‘ ایک فرد کی انفرادی و ذاتی زندگی کا ایک بہت بڑا دورانیہ ہوتا ہے، ایک سال کے دوران کئی منصوبے، بے شمار ارادے اور کتنے ہی ترتیب دیئے ہوئے انسانی قیاسات و اندازے و تخمینے گزر جاتے ہیں، سال کے آخر میں انسان سوچتا ہے کہ ان میں سے کتنے پایۂ تکمیل کو پہنچے، کتنے ہنور زیرتکمیل ہیں اور کتنے ہی ہیں جو محض ہوا میں تحلیل ہو کر آرزوؤں، خواہشات اور امنگوں کی شکل اختیار کرکے تو وقت کہ دبیز تہہ میں دب کر قبر ماضی میں دفن ہوچکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی کسک سینے میں چھبتی رہتی ہے اور کچھ نسیان و فراموشی کی منزل کو پا لیتے ہیں گویا ارادے سے شعور اور شعور سے تحت الشعور اور پھر لاشعور کے راستے انسانی وہم و گمان سے باہر نکل جاتے ہیں۔ پس اس خاص تناظر میں مذکورہ بالا قول رسولﷺ کتنا برموقع ہے کہ اگرچہ ہر دن کے اختتام پر خوداحتسابی کے عمل پیہم سے گزرنا ایک خوشگوار عادت ہے لیکن دن کے حجم کو ایک سال کی وسیع ترمدت پر قیاس کیا جائے تو تصویر بہت کچھ واضع ہوجاتی ہے اور انسان اپنا کچھا چٹھا خود سے ملاحظہ کر کے اپنی بڑھوتری یا خسارے کا اندازہ لگا لیتا ہے۔
سال کا اختتام جب ایک فرد کی زندگی میں ہوتاہے تواس کی زندگی کاایک سال کم ہوجاتاہے گویااس کو کل عمر میں ایک سال کے نقصان کاسامنا کرنا پڑ گیا،اس موقع پر اسے اپنے نقصان کو فائدے میں بدلنے کی فکرکرنی چاہیے اور بڑی سنجیدگی سے آئندہ کالائحہ عمل اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ آنے والے سال کے نقصان پر اس کا سالانہ گوشوارہ فعل و عمل اسے سال بھرمیں امیدویقین کے درمیان نظر آئے نہ کہ خسارہ و پشیمانی اسے لاحق ہو جائے۔اپنے بچوں کی تاریخ پیدائش پر یہی امر ان کے ذہن نشین کرایا جائے کہ بار الہ سے جو مہلت عمل ملی تھی اس میں ایک سال جیسی لمبی مدت کی کمی ہو چکی ہے جس کاحساب دیناہے،پس اپنے ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک خط فا صل دراز کر کے خود احتسابی کرو کہ گزشتہ سے آئندہ کو کیسے بہتر بنایا جاسکتاہے۔نوآبادیاتی سیکولر تہذیب نے اپنی مدت عمر میں ایک سال کے نقصان پر جس سالگرہ کے منانے کا بے ہودہ اور لایعنی تصور دیاہے وہ حقیقت سے دور دور تک بھی کوئی متعلق نہیں ہے۔نقصان پر خوشی کے اظہارکاتعلق ذہنی پسماندگی سے تو ہوسکتاہے فکری بالیدگی سے بہرحال اس کاکوئی جوڑ نہیں ہے۔ایک بچے کے ساتھ یہ ایک سنگین مذاق ہے کہ اس کی عمر کاایک اور سال مکمل ہونے پر لہوولعب اور خرافات و واہیات پرمبنی محافل جمائی جائیں اور بھاری بھرکم تحائف کی ادائگی سے انسانیت کے ناتواں کاندھوں پر ناروا بوجھ کا لاحاصل وزن ڈال دیاجائے۔
اسی طرح ہر قوم کا بھی ایک یوم آغاز ہوتاہے جہاں سے اس کی آزادی کاسفر یااس کے نظریے کی تاسیس شروع ہوتی ہے۔اس دن کو بھی یوم آزادی کی بجائے ’’یوم ذمہ داری‘‘کی حیثیت سے منانا چاہیے کہ ایک قوم نے اپنے قیمتی سال کاآغاز کن حالات میں کیاتھا اور آج اس سال کے اختتام پر وہ کہاں کھڑی ہے؟؟؟فرد کی طرح قوم بھی اپنے سالانہ گوشوارہ فعل و عمل کی تجدید کرے اور اس دن کو غوروفکرمیں گزاراجائے اور بے لاگ تجزیے سے جائزہ لیاجائے کہ اس سال بھرمیں ہم نے کیاکھویاکیاپایااور کیاکھایا اور کیابچایا۔بہت چھوٹے درجے سے اور اونچے مقامات تک احتسابی بیٹھکیں ہوں جو اپنے اپنے دائرہ کار کا بھرپور جائزہ لیں۔مثلاََ ایک تعلیمی ادارہ اپنی ہر ہر جماعت کے نگران سے استفسارکرے کہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال کی نسل میں کتنی ذہنی پختگی درآئی ہے ،پوراادارہ اس بات کاجائزہ لے کہ ہم نے اپنی نسل کو اپنے ہی سانچے میں ڈھالا کہ جس طرح مرغی اپنے پروں کے نیچے اپنی نسل کاتحفظ کرتی ہے؟؟؟یا ہم نے اپنی نسل کواپنے ہی ہاتھوں سے غیراقوام کے سامنے ڈال دیاکہ وہ اقوام ہماری نسل کواپنی زبان،اپنی زبان،اپنے نظریات اور اپنے فکروفلسفہ سے آلودہ کردیں۔اورپورامحکمہ تعلیم یوم آزادی کے موقع پر قوم کے سامنے جوابدہ ہو کہ اس نے اپنی آزادقوم میں روح آزادی پھونکی یااس کے ذہن سے غیرسے آزادی کاتصورنکال کرمادرپدرآزادی کا تصور ڈال دیا؟؟؟۔عدلیہ بھی اپنے بہت چھوٹی سطح سے بہت اعلی سطح تک اپناہی جائزہ لے کہ گزشتہ سے پیوستہ سال اگرتاخیرانصاف سے جرائم میں اضافہ ہواتو اس سال ہم نے اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر کس درجہ قابو پالیاہے۔ محکمہ شرطہ،محکمہ احتساب،محکمہ رسل و رسائل ومواصلات ،محکمہ تعلقات عامہ اور اعلی حکومتی ایوانوں تک پوری قوم میں سال آزادی کے اختتام ایک ماحول برپاکردیاجائے اور اسی طرح کے سوالات پوری قوم کے دیگر اداروں،محکموں اوراعلی ترین ذمہ داروں سے بھی کیے جائیں تاکہ سال بہ سال ہم بحیثیت قوم اپنے تنزل کوارتقاء میں بدل سکیں۔
ایک سال کے اختتام پر اور آئندہ سال کے آغاز پر قرآن مجید نے اپنے ایک خاص انداز سے بہت خوبصورت تبصرہ کیاہے۔سال چونکہ زمانے کی ایک اکائی تصورکی جاتی ہے چنانچہ قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے زمانے کی قسم کھاتے ہوئے انسان کے نقصان کو واضع کیاہے گویازمانے کی اس مدت کے گزرنے پر انسان نقصان کاشکارہوگیا۔خودقرآن مجید نے انسانی مہلت کو وقت سے تعبیر کیاہے اور جتناوقت انسان کو ملااس میں سے ایک سال گزرنے کامطلب ہے ایک سال کا نقصان ہوگیااور وقت کے استعارے جو دولت انسان کو میسرآئی تھی اب وہ مزید کمی کاشکار ہوتے ہوئے تنزل پزیر ہے۔قرآن کا یہ تصور عقل و خرد انسانی سے کتنا قریب تر ہے کہ انسان کے ان تقاضوں اور پیمانوں پر عین پورا اترتا ہے جو خود حضرت انسان نے اپنے کامیابی و ناکامی کے لیے تراش رکھے ہیں۔طالب علم کو امتحان گاہ میں ایک خاص وقت لیے پرچہ تھمایاجاتاہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اعلان کیاجاتارہتاہے کہ اب اتنا وقت گزرگیایااتنا وقت رہ گیا،وقت کے اسی پیمانے پر طالب علم اپنی کارکردگی کو جانچتااورتولتاچلاجاتاہے اور جتناوقت گزرتاچلاجائے وہ اس کے مدت امتحان سے منہاکرلیاجاتاہے اورپھربقیہ وقت میں وہ اپنی کارگردگی کو اس تیزی سے پوراکرتاہے کہ وقت گزشتہ کے نقصان کو پوراکر سکے۔اسی طرح فی زمانہ ایک مخصوص مدت کے لیے برسراقتدارآنے والے حکمرانوں کی کارکردگی کو وقت کے پیمانوں سے جانچااورپرکھاجاتاہے کہ کتنی مدت گزرگئی اور کتنی کامیابیاں حاصل کر لی گئیںیا نہیں حاصل کی جا سکیں۔ایک سال کااختتام اور اگلے سال کی آمد پر قرآن کے اس تبصرے کو امام رازی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ نے ایک اورمثال سے بھی روشن کیاہے،وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اس نقصان کو برف فروش کی صداسے پہچانا جو بآوازبلندپکارتاچلاجارہاتھاکہ لوگو میراسرمایا پگھلتاچلاجارہاہے ،کوئی تو خریدلو۔ہرمنصوبہ ایک خاص مدت کے لیے مرتب کیاجاتا ہے اور وہ مدت مقصودہی اس کی کامیابی یاناکامی کی دلیل ثابت ہوتی ہے۔
ایک سال کا اختتام اگلے سال کا آغاز انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟ انسان کا مقصد وجود عبادت ہے، پس انسان شعور سے وفات تک عبادت گزار ہی رہتا ہے،کہیں تو ایک اﷲ تعالی عبادت کرتاہے تو کہیں اپنی خواہشات نفسانی کی عبادت کرتاہے،کوئی انسان پیٹ کا پجاری ہے تو کوئی پیٹ سے نیچے کی خواہش کو خدا بنائے بیٹھاہے اور کسی نے دولت،شہرت اور اپنے پیشے کو الہ تصور کرلیاہے اور کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنی قوم،رنگ،نسل ،علاقہ اور اپنی زبان کے دیوتاؤں کی پوجا کرتے چلے جارہے ہیں اور انسانوں کے ہر قبیلے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اقتدارکے بت کا پجاری ہے اور اسے دین فروخت کرنا پڑے ا یااپنے ایمان کا سوداکرنا پڑے یا پھر اپنے ملک و ملت اور قوم کو داؤپر لگاناپڑے وہ کسی بھی قیمت پر اقتدارکے اس بت کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا۔انسان چاہے یا نہ چاہے وہ بہرصورت ایک پجاری کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اگرچہ اپنی پجارت و عبادت کووہ کیسے ہی دیگر ناموں سے موسوم کر بیٹھے۔پس جس کسی نے اپنا ایک سال کا سرمایا عظیم ایسی عبادت میں گزاراجس سے اسے نفع ہواتو وہ کامیاب ہے اورجس کی عبادت نے اسے نقصان سے ہمکنارکیااس کاسال اسی طالب علم کی طرح ضائع ہوگیاجو ایک بار پھر گزشتہ جماعت میں بٹھادیاگیا۔کامیابی کے بے شمار پیمانے ہمیشہ سے قبیلہ بنی آدم میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں ان کو انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات نے دو ہی حصوں میں تقسیم کیاہے،دنیاکی کامیابی اور آخرت کی کامیابی ۔پس جس نبی علیہ السلام سے منسوب ایک سال کااختتام اور دوسرے کاآغاز ہے انہی کی تعلیمات آخرت کی کامیابی کی طرف بلاتی ہیں۔کیاہی خوبصور ت بات ہو کہ جس رب کی طرف انسان کھنچاچلاجارہاہے اس کی طرف خود اپنی مرضی سے بڑھتاچلاجائے اور تمام جھوٹی عبادتوں کو خیرآبادکہتے ہوئے ایک سچی عبادت کواپنی زندگی میں اپنالے۔روزانہ کی بنیادپر خود احتسابی،پھر ہفتہ وار خود احتسابی اور پھر ماہانہ بنیادوں پر خود احتسابی کے بعد سال کے اختتام پر دیکھاجائے کہ ہم نے انفرادی طورپرکہاں ہیں اور بحیثیت قوم اوربحیثیت امت ہم نے کیاحاصل کیا۔بحیثیت فرد کے موت ہر وقت پیش نظر رہے کیونکہ محسن انسانیت ﷺ نے مسجد سے نکلتے ہوئے حضرت علی کرم اﷲ وجہ سے پوچھاکتنا زندہ رہنے کی توقع ہے؟؟؟عرض کیاایک جوتاتو پہن چکاہوں دوسرے کی خبر نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا تم نے تو بہت لمبی امید باندھ لی اور پھرارشاد فرمایامجھے ﷺکو توآنکھ جھپکنے کی بھی توقع نہیں کہ اتنی مہلت بھی ملے گی کہ نہیں۔یہ ایک فرد کے لیے تعلیمات ہیں جبکہ کل امت کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے روم اور ایران کی کنجیاں اور بحرین کے خزانوں کی پیشین گوئیاں فرمائی جا رہی ہیں۔پس ہمارا سال اس طرح گزرے کہ ایک فرد کی حیثیت سے رخت سفر ہمہ وقت تیارہے اور مسافر پابہ رکاب رہے لیکن اپنے عقیدہ و ملک و ملت اور آنے والی نسلوں کے لیے اتنی بڑی قربانی کا جذبہ ہو کہ صدیوں تک ان کی بالادستی دنیاپر قائم کرنا پیش نظر ہو۔
اس سال کے نقصان اورآئندہ سال کے آغازپر خوشیاں منانا اور لھولعب اور بدمستیوں میں راتیں گزارنا کہیں کی عقلمندی نہیں ہے،ہر نقصان دعوت فکر دیتاہے اور فکرکے لمحات کوآوارگی کی نظر کرنا بے ہودگی اور واہیاتی کی علامات ہیں۔ہمارادشمن ہمیں ہمارے نقصان سے بے خبر رکھ کر ہمیں فتح کرناچاہتاہے۔ تین سوسالہ دورغلامی کے دوران انگریز نے اپنی خوبی توکوئی بھی ہمارے اندر نفوذپزیرنہیں ہونے دی لیکن اپنی خباثتیں ساری کی ساری چھوڑ گیااور ایک بہت موثر طبقہ ہمارے درمیان باقی رکھ گیاجو آج تک اسی کاذہنی غلام ہے اور اسی کی تہذیبی و ثقافتی باقیات سے چمٹا ہے۔سیکولرمغربی تہذیب کادلدادہ یہ طبقہ عبداﷲ بن ابی اور میرجعفرومیرصادق کاکرداراداکرنے والا دوقومی نظریے سے منحرف طبقہ ہے جس کے پنجے آج تک ہماری نسلوں کی گردنوں پر پیوست ہیں اور ہمارا خون نچوڑ کر اپنے آقاؤں کا دوزخ بھرنے اورہمیں سود کی دوزخ میں جلاناچاہتاہے لیکن اب وقت نے کروٹ لے لی ہے اور بہت جلد یہ طبقہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہو گااور غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گریں گی،انشاء اﷲ تعالی۔