Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

پانی

کتنا نایاب ہوگیا پانی
اب تو اک خواب ہوگیا پانی

خشک سالی ہے ہر اِک دریا میں
کہاں غرقاب ہوگیا پانی

ہاں ہزاروں میں دستیاب تو ہے
مفت نایاب ہوگیا پانی

اک طرف بجلی نے کیا بے حال
دوجا عذاب بن گیا پانی

لوگ ڈھونڈتے ہیں مارے مارے
گویا سُرخاب ہوگیا پانی

اپنے اعمال بھی تو ایسے تھے
تب ہی تو خواب ہوگیا پانی

سونا چاندی ڈیزل پیٹرول کے بعد
اک سراب بن گیا پانی

انساں انساں کو پیاسا مارتا ہے
حیاتِ آب ہوگیا پانی

پانیوں پر لڑائی ہوتی ہے
کتنا خوناب ہوگیا پانی

جب میسر تھا قدر نہ کی ندیمؔ
روٹھا احباب ہوگیا پانی

——————–
ندیمؔ قادری
——————–

 

 

آزاد تکلّم

شام ڈھلے تم آجانا، مجھے ایک غزل لکھنی ہے
شبنم سے دُھلی گلاب ہو تم، دراصل حسن کا سیلاب ہو تم
اسی سیلاب میں بہہ کر، تیرے حسین چہرے پر
مجھے ایک غزل لکھنی ہے
بدمست ہوا کے جھونکے میں، تیری زلف سیاہ لہراتی ہے
جس طرح کوئی ناگن جنگل میں، لہراتی ہے بل کھاتی ہے
اب تیری گھینری زلفوں پر، مجھے ایک غزل لکھنی ہے
ہیں ہونٹ تمہارے یاقوتی، مخمور تمہاری آنکھیں ہیں
ماتھے پہ مچلتے ہیں تارے، مرمر سے تراشی بانہیں ہیں
بانہوں میں سمٹ کر جانِ جہاں، مجھے ایک غزل لکھنی ہے
تیرا چہرہ جیسے کھلتا کنول، اور صابرؔ کی تو جانِ غزل
تو چاند بھی ہے آفتاب بھی ہے، بے مثل بھی ہے لاجواب بھی ہے
قدرت کے اسی شاہکار پر، مجھے ایک غزل لکھنی ہے
——————-
صابر حسین صابرؔ

——————-

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل