تیرے جلوے ہیں موج زن ہر سو
ذرے، ذرے میں ہے ترا جادو
باغ ہستی میں جتنی اشیاء ہیں
کب کسی شئے میں ہے تری خوبو
تجھ کو دیکھیں تو ہوش کھو بیٹھیں
یہ پری چہرگانِ سنبل مُو
تیرے جلوؤں کی تابناکی سے
دم بخود ہے مری زبانِ غلو
تیری توصیف کیا کرے کوئی
پیکرِ حسن بے مثال ہے تو
تیرے دیدار حسن سے پہلے
شوق کو چاہئے نظر کا وضو
تیری آنکھوں کی یاد میگوں سے
مست رہتا ہوں بے خمارِ سُبو
چاند کو شب میں دیکھ کر تنہا
چین آتا نہیں، کسی پہلو
شمع نے یہ کہا پتنگوں سے
عشق پاتا ہے بعد مرگ علو
کوئی پوچھے تو کیا کہوں کاوشؔ
میری آنکھوں میں کیوں ہے دل کا لہو
—————————
کاوشؔ عمر
—————————
کچھ کارِ عشق کا جہاں ہونا چاہئے
جو ہو نہیں رہا ہے یہاں ہونا چاہئے
دل جیتنے کے طور طریقے ہیں اور بھی
لازم نہیں کہ تیر و کماں ہونا چاہئے
صحرائے زندگی میں تھا جلنا سو جل گئے
یہ کیا ضرور ہے کہ دھواں ہونا چاہئے
جو خود ہو اپنی ذات میں اِک انجمن اُسے
خلوت میں گر نہیں تو کہاں ہونا چاہئے
منطق سے فلسفے سے بھی ہٹ کر کبھی کبھی
افسانۂ حیات بیاں ہونا چاہئے
یارو حصار ذات سے باہر کبھی کبھی
صحرا بدوش رقص کناں ہونا چاہئے
احمدؔ جدید تر لب و لہجے کے ساتھ ساتھ
کچھ تو غزل میں لطفِ زباں ہونا چاہئے
—————————
احمدؔ سعید فیض آبادی
—————————