شیخ لیاقت علی
ٍ نامور موسیقار خواجہ خورشید انور اور معروف ہدایت کار مسعود پرویز کا فنی اشتراک پاکستان میں 12 مئی 1956ء بروز عیدالفطر پر ریلیز نغماتی تخلیق ’’انتظار‘‘ سے بڑی کامیابی سے ہوا۔ اس فلم کے نغمات نے پورے برصغیر میں دھوم مچا دی تھی۔ فلم ’’انتظار‘‘ کے بعد یہ دونوں ہمہ جہت شخصیات زہر عشق، جھومر، کوئل، سرحد، گڈو، ہیر رانجھا اور حیدر علی میں یکجا ہوئے اور ان فلموں میں کانوں میں رس گھولنے والی موسیقی سننے کو ملی۔ ان فلموں میں ’’کوئل‘‘ 24 دسمبر 1959ء کو ریلیز ہوئی۔ کراچی میں ’’کوئل‘‘ سابقہ ریگل سینما کی زینت بنی۔ 59 برس قبل سینما اسکرینز پر گونجنے والی اس ’’کوئل‘‘ کے فلمساز مسعود پرویز اور جمال بٹ تھے جبکہ مصنف شمس لکھنوی، عکاس نبی احمد، نغمہ نگار تنویر نقوی اور فلم کو بے داغ ہدایات سے سجانے والے مسعود پرویز تھے۔ کوئل اپنے دور کی انتہائی کامیاب، لاجواب شاہکار، یادگار رومانی و نغماتی فلم گردانی گئی جو نہ صرف اپنی کہانی کے تناظر میں بلکہ موسیقی اور بزنس کے اعتبار سے اُس دور میں پاکستانی سینما گھروں میں نمائش پذیر بھارتی فلموں کے مقابلے میں سرفہرست رہی، کامیاب رہی۔ ماہ دسمبر ایسا مہینہ جس میں یخ بستہ سرد ہواؤں کے ساتھ غضب کی سردی پڑتی ہو، اُس ماہ میں اس سرد موسم کے سناٹے میں جب کوئل کے مُدھ بھرے نغمات پردہ سیمیں پہ گونجتے تھے اور اُن کی بازگشت سینما گھروں کے باہر سماعتوں سے ٹکراتی تو بے ساختہ چلتے قدم رُک سے جاتے اور عجب کیف و سرور کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ آج بھی جب اس کوئل کے یہ نغمات ہم سنتے ہیں تو ماضی کی حسین یادیں عود کر آتی ہیں۔
میں نے تجھ سے پیار کیوں کیا او بے وفا تیرا انتظار کیوں کیا او بے وفا
تیرے بنا سونی سونی لاگے رے چاندنی رات چاندنی رات
ساگر روئے لہریں شور مچائیں یاد پیا کی آئے نیناں بھر آئیں
دل کا دیا جلایا میں نے دل کا دیا جلایا تجھ کو کہیں نہ پایا
ملکی فضائیں گاتی ہوائیں بہکے نظارے سارے کے سارے تیرے لئے ہیں
ملکہ ترنم نورجہاں کے مذکورہ بالا نغمات کے علاوہ کوئل کے یہ نغمات بھی زبان فرد عام ہوئے۔
رم جھم رم جھم پڑے پھوار تیرا میرا نِت کا پیار (ناہید نیازی/نجمہ نیازی
رم جھم رم جھم پڑے پھوار تیرا میرا نِت کا پیار (نورجہاں/منیر حسین
او دل جلا نہ دل والے آنکھیں اُٹھا لے نظریں ملا لے نظریں اُٹھا کے مجھے اپنا بنا لے (زبیدہ خانم
*مستی میں جھوم جھوم رے ساغر کو چوم چوم رے (زبیدہ خانم
فلم میں زبیدہ خانم کے گائے دونوں نغمات اداکارہ نیلو پر پہلا دو گانا ’’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘‘ چائلڈ اسٹارز بے بی پروین اور ماسٹر صغیر آغا پر اور دوسرا دو گانا ’’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘‘ فلم کی ہیروئن نورجہاں اور ہیرو اسلم پرویز پر فلمائے گئے تھے جبکہ نورجہاں کے گائے نغمات خود انہی پر فلمائے گئے تھے۔ ’’کوئل‘‘ مکمل طور پر نغماتی فلم تھی جس کے تمام نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ سال 1959ء کے لئے اس فلم میں تنویر نقوی نے بہترین نغمہ نگار کا نگار ایوارڈ اس نغمے ’’دل کا دیا جلایا میں نے‘‘ کے لئے۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے بہترین گلوکارہ کا نگار ایوارڈ اسی ہی نغمے کی بے مثل گائیکی پر، نیلو نے بہترین معاون اداکارہ کے لئے نگار ایوارڈ اور سی منڈوڈی نے بہترین صدا بند کے لئے نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ اس فلم کی کاسٹ میں نورجہاں، اسلم پرویز، علاؤ الدین، نذر غلام محمد، نیلو، آزاد، ساحرہ، بے بی پروین اور ماسٹر آغا شامل تھے۔ آیئے ’’کوئل‘‘ کی اپنی کہانی سنتے ہیں:
’’کلاسیکل گائیک اللہ بندے خان (علاؤ الدین) ایک گاؤں میں اپنی بیوی (اداکارہ ساحرہ) اور بیٹی زرینہ (بے بی پروین) کے ہمراہ رہتے ہیں۔ ایک دن اُن کے گھر ایک چالباز اور فراڈی قسم کا ایک فنکار رقاص چھٹن خان (اداکار نذر) مہمان بن کے آتا ہے، یہ لالچی اور ابن الوقت شخص اپنی لچھے دار باتوں سے خان صاحب کو مرعوب کرتا ہے اور وہ اس پر اعتماد کرنے لگتے ہیں۔ زرینہ اور شہر کے ایک رئیس کا بیٹا سلمان (ماسٹر آغا) ایک دوسرے کو بچپن ہی سے بے حد چاہتے ہیں۔ زرینہ تحفتاً سلمان کو رومال اور سلمان اُسے کنگھی دیتا ہے۔ سلمان کے ابو عرب ملک بصرہ میں رہتے ہیں اور وہ ایک دن اپنے ابو کے بلاوے پر بصرہ چلا جاتا ہے۔ اسی دوران اللہ بندے خان صاحب کو قاہرہ میں موسیقی کی تقریب میں شرکت کے لئے دعوت نامہ اور ٹکٹ ملتا ہے مگر خان صاحب بیوی اور چھوٹی بیٹی کو تنہا چھوڑنے کے خیال سے انکار کر دیتے ہیں لیکن چھٹن خان کے سمجھانے بجھانے پر وہ قاہرہ جانے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ دوران سفر خان صاحب کا طیارہ ایک سخت طوفان کی زد میں آ کر ایک گمنام جزیرے پر گر جاتا ہے مگر خان صاحب اس اندوہناک حادثے میں بچ جاتے ہیں، کسی نہ کسی طرح وہ ایک شہر میں آتے ہیں اور ایک اخبار کے ذریعے انہیں جب یہ پتہ چلتا ہے کہ خان صاحب کا ہوائی حادثے میں انتقال ہوگیا ہے اور اُن کی بیوہ کو انشورنس کمپنی ایک لاکھ روپے ادا کرے گی، تو یہ سوچتے ہوئے بے خیالی میں ایک کار سے صرف اس لئے ٹکرا جاتے ہیں کہ حقیقت میں مر جائیں تاکہ اُن کی بیوی اور بیٹی سکھ چین سے زندگی بسر کرسکیں، مگر وہ اس حادثے میں بھی بچ جاتے ہیں اور کار کا مالک عربی شیخ انہیں اپنے ہمراہ گھر لے آتا ہے، یہ عربی شیخ اصل میں پاکستانی ہی ہوتے ہیں جو جوانی میں عرب میں ایک عرب خاتون ثمینہ سے شادی کر لیتے ہیں اور ایک بچے کی پیدائش کے بعد فوت ہوجاتی ہے۔ شیخ صاحب نے اپنا وہ بچہ پاکستان میں مقیم اپنی بہن کے پاس بھیج دیا اور یہ وہی بچہ ہے جو بچپن میں زرینہ کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ شیخ کو بھی اخبار کے ذریعے معلوم ہوجاتا ہے اور وہ خان صاحب کو پہچان لیتے ہیں لیکن وہ مصلحتاً اُن پر ظاہر نہیں کرتے۔ دوسری جانب گاؤں میں خان صاحب کی فیملی کو انشورنس کی رقم کا چیک ملتا ہے لیکن بیگم خان صاحب اُسے کیش نہیں کراتی۔ چھٹن خان اس فیملی کو بہلا پھسلا کر کراچی لے آتا ہے، جب فاقہ کشی کی نوبت آجاتی ہے تو چھٹن خان زرینہ کو رقص کی تربیت دے کر تھیٹر میں لے آتا ہے اور اس طرح دال روٹی کا سہارا ہوجاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں بچے زرینہ اور سلمان جوان ہوجاتے ہیں۔ سلمان (اسلم پرویز) اپنے والد کے پاس آتے ہیں جہاں وہ خان صاحب کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں مگر اُن کے چہرے پر داڑھی اور مونچھ کی تبدیلی سے کچھ کشمکش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ سلمان پھر باتوں باتوں میں زرینہ کا دیا ہوا رومال خان صاحب کو دکھاتے ہیں مگر خان صاحب اب اللہ داد خان بن چکے ہیں۔ شیخ صاحب کا انتقال ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں زرینہ (نورجہاں) کو اُس کی ماں اور وہاں عرب میں سلمان کو خان صاحب موسیقی کی تعلیم دیتے ہیں۔ ایک دن اخبار میں خبر چھپتی ہے کہ کراچی میں استاد اللہ بندے خان کی دسویں برسی منائی جارہی ہے اور خان صاحب کی بیٹی نغمہ سراہی کرے گی۔ یہ پروگرام جب ریڈیو سے نشر ہوتا ہے تو زرینہ کا نغمہ ’’دل کا دیا جلایا میں نے‘‘ فضاؤں میں گونجتا ہے، پروگرام آرگنائزر زرینہ کو ’’کوئل‘‘ کا خطاب دیتے ہیں۔ سلمان اب خان صاحب کو پہچان جاتے ہیں اور ایک دن خان صاحب پاکستان جانے کی ارزو ظاہر کرتے ہیں۔ دوسری طرف چھٹن خان بالآخر زرینہ اوراُن کی ماں کو راضی کر لیتا ہے کہ زرینہ اب مستقل تھیٹر میں گائے گی۔ زرینہ کی ماں اس شرط پر اُس کی بات مان لیتی ہے کہ وہ کسی پر بھی یہ ظاہر نہیں کرے گا کہ زرینہ استاد اللہ بندے خان کی بیٹی ہے۔ بعدازاں چھٹن خان زرینہ کو اپنی بیٹی نگینہ بنا کر تھیٹر کے مالک کمالّ اداکار آزاد) کے ساتھ معاہدہ کرلیتا ہے اور وہ امیر گھرانہ بن جاتا ہے۔ جب خان صاحب سلمان کے ہمراہ پاکستان آ کر اپنے گاؤں جاتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ خان صاحب کی موت کے بعد چھٹن خان نے اُن کی بیوہ سے شادی کرلی اور گاؤں سے چلے گئے تھے۔ خان صاحب یہ سب جان کر بے حد دکھی ہوجاتے ہیں۔ سلمان کی شہر میں رہائش عیں زرینہ کے گھر کے سامنے ہوتی ہے۔ ایک دفعہ زرینہ بچپن کا گیت ’’دم جھم رم جھم پڑے پھوار‘‘ گا رہی ہوتی ہے تو جواباً سلمان بھی یہی بچپن کا گیت گاتا ہے۔ وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کی بالکونیوں میں کھڑے ہوتے ہیں، سلمان بے اختیار زرینہ کہتا ہے۔ لیکن زرینہ مصلحتاً اپنا نام ظاہر نہیں کرتی، اُسے تھیٹر کے مالک سے کیا وعدہ یاد آجاتا ہے۔ ادھر خان صاحب بھی جب زرینہ سے اس گیت کے بارے میں پوچھتے ہیں زرینہ بتاتی ہے کہ یہ گانا اُس نے اپنی سہیلی سے سیکھا تھا۔ خان صاحب حد سے زیادہ نگینہ (زرینہ) کا سلمان سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ وہ سلمان کو باور کراتے ہیں کہ اُن کی بیٹی زرینہ مر چکی ہے۔ اب سلمان اپنا غم غلط کرنے کلب جانا شروع کردیتا ہے جہاں کلب کی رقاصہ ستارہ (نیلو) اُس کا دل لبھاتی ہے۔ چھٹن خان کو سلمان کے ذریعے جب پتہ چلتا ہے کہ خان صاحب زندہ ہیں تو اُس کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ خان صاحب کو یہ دکھ اور غصہ کھائے جاتا ہے کہ اُن کی بیوی نے شادی کیوں کی جبکہ یہ صرف غلط فہمی تھی۔ کلب کی رقاصہ ستارہ سلمان کو لبھانے کی کوششوں میں لگی رہتی ہے، زرینہ جب ان حالات سے باخبر ہوتی ہے تو وہ کلب میں آ کر سلمان کی سخت سرزنش کرتی ہے اور اُس کے سامنے تھیٹر کے مالک سے کیا ہوا معاہدہ پھاڑ دیتی ہے۔ خان صاحب کی گیارہویں برسی کے لئے زرینہ آرگنائزر سے دو دعوت نامے لیتی ہیں، اپنے لئے اور خان صاحب کے لئے۔ چھٹن خان سازش کے تحت ستارہ کے ہاتھوں زرینہ کو رس گلے میں ملا سندھور کھلا دیتی ہے۔ پولیس شبے میں خان صاحب کو حراست میں لے لیتی ہے۔ زرینہ مختصر آپریشن سے ٹھیک ہوجاتی ہے اور عین وقت پر تقریب میں آ کر گاتی ہے۔ ’’میں نے تجھ سے پیار کیوں کیا او بے وفا‘‘ خان صاحب زرینہ کو گلے سے لگا لیتے ہیں۔ چھٹن خان اور ستارہ گرفتار ہوجاتے ہیں۔ خان صاحب کو اپنی بیگم، بیٹی اور سلمان کو اُس کی زرینہ۔ اور اس طرح کوئل مکمل ہوتی ہے۔