محمد ایاز
شام کی سر زمین کو قرآن نے بابرکت قرار دیا ہے اور رسالت مآبؐ نے شام کے لئے ’’علیکم بالشام‘‘ ، ’’طوبیٰ للشام‘‘ اور ’’کنانۃ الاسلام ‘‘ جیسے الفاظ استعمال فرما ئے ہیں۔ یہ سر زمین وہ مبارک قطعہ ارضی ہے جہاں پر اللہ تعالیٰ کے کئی بزرگ و چنیدہ ہستیاں یکے بعد دیگرے آتی رہی ہیں اور اس علاقے کو نور الٰہی سے منور کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ شام کا علاقہ قدیم متمدن دنیا کی عظیم اقوام کا مسکن رہا ہے اور یہاں پرنہ صرف یہ کہ مختلف اوقات میں مختلف اقوام نے حکومتیں کی ہیں بلکہ جدید دور میں بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جیسا کہ حالیہ خانہ جنگی میں مختلف اقوام کی نمائندگی اس کی اہمیت پر دال ہے۔
شام میں اس وقت بشار الاسد کی حکومت ہے۔ یہ علوی نصیری فرقے سے تعلق رکھتا ہے جو کْل شام کی آبادی کا 10 سے 15 فیصد ہے۔ اس 15 فیصد اقلیت نے 85 فیصد سنی اکثریت کو بدترین استحصال اور ظلم کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ شام میں اس اقلیت کی بربریت کا اندازہ یتیم، بیواؤں اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جب بھی کسی خطہ زمین سے کسی طاقتور کے مفادات وابستہ ہوئے اس نے ہمیشہ اس خطے کو مفاد ات کے حصول کے لئے ویران کیا اور یہ معاملہ دورِ جدید کے فاتحین ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ماضی سے اسی طرح ہوتا آرہا ہے، قرآن مجید میں ملکہ سباء کے وہ الفاظ اسی جانب اشارہ کرتے ہیں جب وہ اپنے پاسبانوں سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے مکتوب سے متعلق مشورہ لے رہی تھی کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب کر ڈالتے ہیں اور اس کے باعزت باشندوں کو ذلیل کرکے چھوڑ تے ہیں‘‘ اور اس کے بعد قرآن میں ملکہ سباء کا یہ جملہ بھی مذکور ہے کہ: ’’یہ(بادشاہ) ایسا ہی کیا کرتے ہیں‘‘ یعنی ان کا وتیرہ ہی یہ ہے کہ جب کسی بستی میں جا گھستے ہیں تو اسے تخت و تاراج کر دیتے ہیں۔ یہی معاملہ شام کا بھی ہے شام کی اس سرزمین سے بھی عالمی طاقتوں کے مختلف مفادات وابستہ ہیں جن کی بدولت آج شام لہولہان اور ظلم کی ایک تصویر بنا ہوا ہے۔ یہ تصویر بھی ایسی کہ دیکھ کر انسانیت کا سر شرم کے مارے جھک جائے۔ ان مظالم کو ذکر کرنے سے پہلے جس نے داستانِ ہجرت و نصرت کو جنم دیا ہے، بڑے طاقتوں کے ان مفادات کا ذکر کرتے ہیں جو اس خطے کو لہولہان کرنے اور خانہ جنگی پیدا کرنے کا باعث بنے۔ شام میں خانہ جنگی برپا کرنے والوں کے مفادات جو اس سرزمین سے وابستہ ہیں کچھ یوں ہیں۔ روس حالیہ خانہ جنگی میں سب سے زیادہ ظالمانہ کردار ادا کررہا ہے اور انسانیت کی تذلیل اور مسلم دشمنی میں سب سے آگے ہے، اس خطے میں روس کے پاس صرف ایک فوجی اڈا ہے جو طرطوس کے مقام پر واقع ہے اور اس کے ذریعے سے وہ گرم پانی تک رسائی اور خطے میں اثرو رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس مد میں روس کئی مرتبہ گرم پانی تک رسائی کی کوششیں بھی کرچکا ہے مگر ناکام رہا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کے پاس جزیرۂ العرب میں متعدد اڈے ہیں جن سے وہ اس خطے میں اثرورسوخ قائم کرچکا ہے جو کہ روس کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ اس لئے روس اس اڈے کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے اور اس اڈے کو بچانے کے لئے لازم ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت مضبوط اور مستحکم ہو۔ لہٰذا روس بشار الاسد حکومت کے مخالفت میں کھڑی ہر رکاوٹ ہٹا دینا چاہتا ہے اس لئے وہ شامی عوام پر، جو اسد مخالفت میں کھڑی ہے، کسی بھی قسم کے مظالم سے دریغ نہیں کررہا ہے۔ اسرائیل و امریکہ کے مفادات یہ ہیں کہ اسرائیل کے منصوبے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کو تکمیل تک پہچانے کے لئے لازم ہے کہ شام کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے کیونکہ شام کا علاقہ گولان ہائٹس اسرائیل کے منصوبے کا حصہ ہے اور اس مقصد کے لئے اسرائیل کے بے دام غلام (امریکہ) نے سرزمین شام کو لہولہان کرنے کا ٹھیکہ لیا ہے۔ امریکہ نے شام کی اس بربادی میں بہیمانہ کردار ادا کیا ہے اور کررہا ہے۔ اس علاقے میں داعش کو لے کر آنا پھر اس کو محفوظ راستوں سے دوبارہ نکالنا اور شام میں ایک بھرپور خانہ جنگی کے ماحول کو پیدا کرنا امریکہ کے کارنامے ہیں اور ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح شام کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ اس کے ناجائز بچے (اسرائیل) کے منصو بے کی تکمیل ممکن ہوسکے۔ اس خانہ جنگی میں ایران کے بھی کچھ مفادات ہیں، ایران جوکہ شیعی عالمگیریت کے لئے توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے،اس کا بھی اس خانہ جنگی میں اہم کردار ہے۔ شام میں اس وقت جو اقلیت برسراقتدار ہے وہ اہل تشیع ہے اور ایران اس معاملے کو فرقہ وارنہ رنگ دے کر انتہائی بھیانک کردار ادا کررہا ہے۔ ثالث یا مصلح بننے کے بجائے شام میں ظالم اقلیت سے مکمل تعاون، جنگی حکمتِ عملی اور افرادی قوت کی فراہمی وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے شام میں خانہ جنگی طول پکڑ رہی ہے۔ شام کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ کئی شہر ملیامیٹ کردیئے گئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج کل شہر غوطہ زیرعتاب ہے جہاں اب تک 4 لاکھ 50 ہزار شامی جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد معذور اور بے گھر ہوگئے ہیں۔ پورے شام میں شام غم ہے، ہر آنکھ اشکبار اور ہر انسان مظلومیت کی ایک تصویر بنا ہوا ہے۔ ظالم کا طریقہ واردات بھی نرالا ہے جہاں خون بہانا مقصود اور ظلم کی داستان رقم کرنی ہوتی ہے وہاں واردات سے پہلے بجلی، پانی اور زمینی راستوں کو منقطع کردیا جاتا ہے اور پھر ہیلی کاپٹروں سے اسپتال، درسگاہ اور آبادی کا پاس رکھے بغیر بمباری شروع کردیتا ہے۔ ان مظالم کو چھپانے کے لئے غیرملکی صحافیوں اور ذرائعِ ابلاغ پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور صرف ان کو خبر دینے کی اجازت دی جاتی ہے جو حکومت کا مثبت رخ پیش کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ترکی کا کردار انتہائی قابل تحسین ہے، امریکہ، روس اور برطانیہ سمیت بہت سارے ممالک کے لئے ترکی ناقابلِ برداشت حد تک دردِسر بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ خوب ظاہر ہے کہ ترکی وہ کام کررہا ہے جس کے خاتمے کے لئے یہ تمام ممالک ایک زمانے سے تگ و دو میں ہیں۔ ان طاغوتوں نے مسلمانو ں کے دِلوں سے محبت کے جذبوں کو نکال باہر کرنے، ایثار و مروت کے جذبات کو ناپید کرنے، ہوس پرستی اور حبِ مال کو ان کے لئے مزین کرنے کا ایک منظم انتظام کیا تھا اور اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج مسلم ممالک کے نوجوان، مسلمانوں کی اس عالمی سطح پر سرکوبی سے متعلق یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ ان کا اپنا مسئلہ ہے اس میں ہم مداخلت کیوں کریں، شام کا مسئلہ ان کا اندرونی مسئلہ ہے ہم اس میں مداخلت کیوں کریں۔ تو ایسے میں ایک ملک (ترکی) جو ایسے تصورات کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے جن کے ذریعے کسی قوم کے اندر مروت، اخوت اور ایثار کا جذبہ پروان چڑھے، ان اسلام دشمن عناصر کے لئے کیسے قابل برداشت ہوسکتا ہے جو ان اعلیٰ اقدار کے خاتمے پر تلے ہوئے ہیں، اور پھر ایک ایسی فکر کو فروغ دینا جس میں ہر مسلمان مسلمان کا بھائی اور سب ایک دوسرے کے درد و غم میں شریک ہوں کیسے قابل برداشت ہوسکتا ہے۔ یعنی سادہ الفاظ میں اگر کہا جائے تو امت مسلمہ کے اتحاد کی فکر زندہ کرنے والا اگر اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والوں کے آنکھوں میں نہ کھٹکے تو اور کیا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ ترکی عالمی کفری طاقتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی اور ان کی امیدوں پر پانی پھیرنے کی وجہ سے ان کی نظروں میں سب سے زیادہ کھٹکنے والا ملک ہے۔ شام پچھلے سات آٹھ سال سے مسلسل خانہ جنگی کی زد میں ہے، وہاں پر مظلوم شامی عوام کو نہ صرف یہ کہ بمباری اور ظلم و تشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ انہیں وہاں سے نکلنے بھی نہیں دیا جاتا۔ ان کی مدد کے لئے جانے والوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کے بہت سارے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں جس میں اسپتالوں اور ایمبولینسوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس طرح ان جنگ زدہ علاقوں سے مہاجرین کو نکالنا کوئی آسان کام بھی نہیں ہے لیکن ترکی ان مہاجرین کے لئے وہاں مختلف ٹیمیں بھیج کر ان کو وہاں سے نکال لاتے ہیں اور اس میں خوشی کی بات یہ ہے کہ ان نکالنے والوں کو مجبور نہیں کیا جاتا ہے بلکہ وہ شوق سے جذبہ ایما ن کے ساتھ اس خدمت کو انجام دے رہے ہیں۔ اس جذبے کی پختگی کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ جب ترکی نوجوانوں کو کسی علاقے میں خدمت کے لئے جانا ہوتاہے تو انہیں ان مقامات تک پہنچنے سے پہلے جہاں سے متاثرین کو نکالنا ہوتا ہے ایک خاص قسم کا ٹریکر دیا جاتا ہے تاکہ حالات خراب ہونے یا خطرناک علاقے میں داخل ہوتے وقت خبردار کیا جاسکے۔ وہ نوجوان اس آلے (ٹریکر) کو رکھ کر جاتے ہیں تاکہ خدمتِ خلق میں مانع نہ ہو اور جذبہ ایمانی کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس طرح ترکی بڑی مقدار میں مہاجرین کو جنگ زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کررہا ہے۔ اب تک دمشق، حما، حلب اور حمص سے لاکھوں مہاجرین کو عزت کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے۔ چونکہ ظلم تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور تاحال یہ بربریت جاری ہے لہٰذا اس سے متاثر ہونے والوں کے لئے رہائش کا انتظام بھی کیا جارہا ہے اور انہیں بھی پُرامن مقامات پر منتقل کرنے کا کام جاری ہے۔
اب تک کئی لاکھ مہاجرین ترکی کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیے گئے ہیں اور ترکی نے دِل کھول کر ان مہاجرین کی خوش آمدید کہا ہے اور کہہ رہا ہے۔ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی قوم ہجرت پر مجبور کی جاتی ہے تو دوسری اقوام ان کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے بہت سارے کام لیتی ہیں لیکن ترکی کا رویہ مہاجرین کے ساتھ یکسر مختلف ہے۔ یہاں نہ ان سے کوئی مطالبہ کیا جاتا ہے اور نہ ان کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا یا جاتا ہے بلکہ اپنے علاقوں کے نام ان سے منسوب کردیتے ہیں جیسے مدینۃ الانصار وغیرہ اور ان کی عزت نفس مجروح ہونے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ ترکی کے اس اقدام سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی حال ہی میں قطر سے کچھ امداد ان متاثرین کی مد میں آئی لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اس امداد کو خود متاثرین کے اندر تقسیم کرنا چاہتے ہیں جس پر ترک انتظامیہ نے ان کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی اور سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ مہاجرین سادات ہیں، باعزت لوگ ہیں اور اولادِ انبیاء میں سے ہیں ہم انہیں امداد کے لئے قطاروں میں نہیں لگا سکتے ہم انہیں ضرورت کی اشیاء ان کے گھروں کی دہلیزوں تک پہنچاتے ہیں وہ ان اشیاکو باعزت طریقے سے وصول کرتے ہیں۔ ترکی میں شامی مہاجرین کو مہمان کہتے ہیں اور ان کے ساتھ جو برتاؤ کرتے ہیں وہ دورِ نبویؐ کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ان مہاجرین کے لئے رہائش کے مختلف انتظامات کیے گئے ہیں چونکہ مہاجرین زیادہ ہیں اور کسی بھی ریاست کے لئے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اچانک بسانا مشکل ہوتا ہے اس لئے ان مہاجرین کو کیمپوں میں رکھا جاتا ہے لیکن وہاں پر بھی ان کے لئے رہائش کے حوالے سے بہترین انتظامات کیے جاتے ہیں۔ یہ کیمپ شام اور ترکی کے بارڈر پر واقع ہیں جہاں پر ترکی کی طرف سے شامی مہاجرین کے لئے مختلف کیمپس لگائے گئے ہیں۔ ان کیمپو ں میں رہائش کے لئے ہر خاندان کے پاس ایک گھر ہوتا ہے۔ ترکی نے آج کے دور میں ایک عظیم الشان مثال قائم کی ہے۔ ترکی عوام نے اپنے شامی بھائیوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی ہے اور ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر ایک ہی گھر میں کئی کئی خاندان رہ رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کرنے سے مدینے کے ان انصار کی یاد تازہ ہوتی ہے جن کے واقعات کبھی علماء سے دروس اور خطباء سے جمعے کے خطابات میں سنتے آئے تھے۔ آج ترکی عوام کی دانستانِ نصرت میں 14 سو سال پہلے کا مدینہ دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی خاتون کے لئے راحت اور سکون کی جگہ اس کا ہمسفر ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے بشارالاسد کے مظالم سے لاکھوں خواتین سے ان کے خاوند چھین لئے گئے، ان کا ازالہ مادی اشیاء سے ہونا تو محال ہے لیکن پھر بھی ترکی کی حکومت نے شامی بیواؤں کو ذاتی مکانات دینے کا پروگرام شروع کر رکھا ہے تاکہ ان کے درد و غم میں کچھ تخفیف ہو، اب تک سینکڑوں بیواؤں کو ذاتی گھر مہیا کیے گئے ہیں۔ ایک مکان پر پاکستانی تقریباً تین کروڑ روپے خرچ آتا ہے لیکن ترکی حکومت یہ صرف اور صرف ان غمزدہ خواتین کے ساتھ جن کے بچے اور شوہر اب ان کے پاس نہیں ہیں ان کی دلِ جوئی کے لئے کرتی ہے۔ وہ شامی مہاجرین جو صاحبِ ثروت ہیں اور استطاعت رکھتے ہیں ان کو کرائے پر گھر لینے کی سہولت فراہم کی گئی ہے کہ وہ ترکی کے شہروں میں بغیر کسی ویزہ فیس کے کہیں پر بھی رہائش اختیار کرسکتے ہیں، آج مادہ پرستی کے اس دور میں ترک حکومت کے یہ اقدامات سراہنے کے قابل ہیں۔
موجودہ دور جہاں خود غرضی انسان کا بنیادی وصف قرار دیا جارہا ہو اور عملاً ہر آدمی اس کا پیکر بنا ہوا ہو ایسے دور میں ترکی کا شامی بھائیوں کے لئے اس قدر خدمات انجام دینا کسی امتحان سے کم نہیں۔ اس وقت ترکی میں موجود مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس قدر زیادہ لوگوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لئے ایک بہت بڑا امتحان ہے اور پھر جب یہ خدمات روزانہ کی بنیاد پر ہوں تو اس کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن ترکی اس امتحان میں تاحال سرخرو ہے۔ ترکی حکومت نے ان مہاجرین کے لئے خوراک کے مختلف انتظامات کیے ہیں۔ جن میں قابل ذکر وہ بیکریاں ہے جن سے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روٹیاں مہاجرین کی بھوک مٹانے کے لئے بنتی ہیں۔ یہ بیکریاں شام اور ترکی کے سرحدی علاقے پر واقع ہے جہاں سے ہر وقت کے کھانے کے لئے میٹھی روٹی فراہم کی جاتی ہے۔ ان بیکریوں کا خرچہ مختلف ممالک کے عوام اور ترکی کی حکومت نے اپنے ذمے لیا ہے۔ بیکری دراصل ایک آٹومیٹک روٹی پلانٹ ہے جسے ترکی میں بیکری کہتے ہیں۔ روزانہ ایک لاکھ روٹیاں پکا کر مہاجرین کے کیمپوں میں بھیجی جاتی ہیں اور زیتون چونکہ ترکی میں زیادہ ہے اور یہ ایک بہترین غذا بھی ہے اس کے تیل خوراک کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مزید برآں، خوشی کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی ایک بیکری پاکستانیوں کے عطیات سے بنی ہے جس پر لگ بھگ دو کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔
ترکی نے ان مہاجرین کی تعلیم و تربیت کے لئے خاطرخواہ انتظامات کئے ہیں، مختلف ذرائع اور طریقوں سے شامیوں کو تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے ان میں سے چند کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔ تعلیم کے سلسلے میں ایسے ہاسٹل کا انتظام کیا گیا ہے جہاں بچے رہتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں۔ ان ہاسٹل میں پڑھانے والے انہی بچوں کے والدین اور رشتہ دار ہوتے ہیں۔ ان ہاسٹل میں تین سیکشن ہوتے ہیں ایک میں صرف لڑکوں، دوسرے میں یتیم لڑکیوں اور تیسرا صرف ان بچوں کے لئے خاص ہے جن کے ساتھ ان کے والدین بھی رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے لئے پڑھانے کے ساتھ ساتھ خوراک کا بھی انتظام اس ہاسٹل میں ہوتا ہے، ان کے بستے اور کتابیں ترک عوام کی طرف سے فراہم کی جاتی ہیں۔ ہاسٹل کی صفائی، بچوں کے کپڑوں کی دھلائی اور پڑھانے کی ذمہ داری ان بچوں کی ماؤں نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ اس طرح ترک حکومت نے دیگر اسلامی ممالک کو مکمل اجازت دی ہے کہ وہ ان مہاجرین کے لئے ترکی کے اندر اسکول سسٹم کا کام کرسکتے ہیں۔ الحمد اللہ ان مہاجرین کے لئے پاکستان کا بھی ایک اسکول کام کررہا ہے۔ ان اسکولوں میں مہاجرین کے ادب و ثقافت کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے، عموماً ہوتا یہ ہے کہ دیارِ غیر میں جاکر حالتِ ہجرت میں متاثرین اپنی زبان ثقافت کو بھول جاتے ہیں لیکن ترکی نے اس کی روک تھام کے لئے بہترین انتظام کیا ہے اور یہ بس نہیں بلکہ خطبہ جمعہ کے اندر انہیں اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ اپنی ثقافت اور تہذیب سے جڑے رہئے کیونکہ تعلیم انہی دو چیزوں پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ شامی خواتین نے اپنے لئے الگ ایک نظام قائم کیا ہے جس میں وہ قرآن حفظ کرتی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے لئے نصاب مقرر کیا ہوتا ہے اور اس مشکل گھڑی میں بھی جہاں بچوں اور گھرکی دیگر ذمہ داریاں سر پر ہوتی ہے قرآن کو سیکھنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔
ترکی وزارتِ تعلیم کے تعاون سے آفاد (اے ایف اے ڈی) نے 508846 بچوں کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا ہے اور یہ مسلسل کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی بھی شامی بچہ بغیر تعلیم کے نہ رہ جائے۔ شامیوں کے لئے ترکی کی سفارتی خدمات بھی کچھ کم نہیں اس وقت عالم اسلام میں ترکی ہی کے اندر ملتِ اسلامیہ کی یکجہتی کا جذبہ نظر آتا ہے جس کی وجہ سے ہر مظلوم کی آنکھ جب اٹھتی ہے تو مدد طلب نظروں سے ترکی کو پکار رہا ہوتا ہے اور ترکی حکومت اس کو باعث سعادت سمجھتی ہے فلسطین کا معاملہ ہو، برما کا ہو یا شام کی خانہ جنگی ترکی نے ہمیشہ مسلمانوں کی نہ صرف یہ کہ کھل کر حمایت کی ہے بلکہ ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے، اس کی مثال حالیہ آپر یشن ہے جو شامی علاقہ آفرین میں جاری ہے۔ ترکی نے عالمی سطح پر بہت کوششیں کی ہیں۔
یہ سارا کام ترکی اپنے ذیلی اداروں آفاد اور آئی ایچ ایچ کے ذریعے کرتا ہے یہ دونوں ادارے پوری دنیا میں خدمت سے استعارے کے طور پر جانے جاتے ہیں، آفاد کا ان حالات میں نمایاں کردار قابلِ تعریف ہے۔ ایسے حالات میں آفاد نے 233400 پناہ گزینوں کو 21 عارضی کالونیوں میں رہائش مہیا کی ہے۔ ان کالونیوں میں صحت اور تعلیم کے لئے مناسب اسکولوں اور اسپتالوں کا انتظام بھی ہے۔ یاد رہے کہ ان اسکولوں اور اسپتالوں میں مہیا کی جانے والی ہر سہولت فی سبیل اللہ بالکل مفت ہے۔ ان اسکولوں میں 80742 شامی طلبہ زیرِتعلیم ہیں۔
مزیدبرآں مذکورہ اسپتالوں میں 224750 مریضوں کو او پی ڈی کی سہولیات فراہم کی جا چکی ہیں۔ 953466 آپریشن ہوچکے ہیں جبکہ 1143393 اسپتال کے مریضوں کا بھی علاج کیا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں 224750 شامی بچے ترکی میں پیدا ہوچکے ہیں۔
اس کے علاوہ شامی مہاجرین کے مستقل معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے 222869 کو مختلف طرز کی پیشہ ورانہ تربیت بھی کی گئی ہے۔ ان مہاجرین کو بین الاقوامی زبانیں سیکھنے سے لے کر کارپٹ کی تیاری تک مختلف ہنر سکھائے گئے ہیں۔ آئی ایچ ایچ ایک پرائیوٹ ترکی ادارہ ہے شامی مہاجرین چاہے وہ شام کے اندر اپنے علاقوں سے ہجرت پر مجبور ہے یا باہر مماک کی طرف ہجرت کرچکے ہیں کو مدد فراہم کرنا اس ادارے نے اپنے ذمے رضاکارانہ طور پر لیا ہے، یہ ادارہ مہاجرین کو پناہ گاہ، کپڑے، تعلیم، صحت اور خواراک فراہم کرتا ہے۔ یتیم بچوں کے لئے یتیم خانے اور خوراک کی فراہمی کے لئے بیکریاں اور سوپ کچن اور رہائش کے لئے کنٹینر سٹی کی تعمیر اس ادارے کے خصوصیات میں سے ہیں، اس کے علاوہ شام کے اندر اور ترکی میں اسپتالوں کے قیام ساتھ دیگر ضروریاتِ زیست کے بندوبست میں اس ادارے نے بہت اہم اور وافر مقدار میں کردار ادا کیا ہے۔