شیخ لیاقت علی
نہ جانے کیا کہا تھا، ڈوبنے والے نے سمندر سے کہ لہریں آج تک ساحل پہ آ کے سر پٹختی ہیں
’’ویدو‘‘ نے اپنی بطور ہیرو پہلی اُردو فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ کے لئے بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا اور اپنی پہلی پنجابی فلم ’’مستانہ ماہی‘‘ کے لئے بھی بہترین اداکاری کے عوض نگار ایوارڈ حاصل کیا جو ایک منفرد اعزاز ہے
ایسی شخصیت کا تذکرہ کہ جس نے عروج و زوال دیکھا، اپنے آپ کو مجتمع اور منتشر ہوتے دیکھا، اُس کی اہمیت اُس کی شہرت سے زیادہ اہم ہے۔ ہر فنکار کو اپنے فن کی بدولت ہر دم، ہر لمحہ، ہر ساعت آگے سے آگے بڑھنے کی اُمنگ ہوتی ہے۔ کچھ کرکے دکھانے کی خواہش ہوتی ہے اور ’’ویدو‘‘ کی بھی یقیناً یہ آرزو رہی کہ وہ اس فیلڈ (فلم) میں آگے سے آگے جائے۔ ہماری شوبز دُنیا میں اور بالخصوص فلم میں یہ روایت رہی ہے کہ جو فنکار کسی کردار میں ہٹ ہوجائے تو پھر اسے مسلسل ویسے ہی کردار ملنے لگتے ہیں اور بعض فنکار تو اس روش کو قبول بھی کر لیتے ہیں، لیکن ’’ویدو‘‘ اس روش کے عین برعکس تھے۔ ایس ایم یوسف کی معاشرتی و اصلاحی فلم ’’اولاد‘‘ (1962) میں ایک لائق فائق فرزند بن کے ماں باپ حبیب اور نیئر سلطانہ کی آنکھوں کا تارا بنے تو قدیر غوری کی نغماتی و اصلاحی فلم ’’دامن‘‘ (1963) میں آزاد خیال، ماڈرن اور خودسر بیوی نیلو کے اصول پسند شوہر بنے۔ مجموعی طور پر ہم اگر ’’ویدو‘‘ کی فلموگرافی پر ایک نظر طائرانہ ڈالیں تو اُن کا ادا کردہ ہر کردار دوسرے کردار سے قدرے جداگانہ اور مختلف دکھائی دے گا۔ اپنی پروڈیوس کردہ ہدایت کار افتخار خان کی پنجابی فلم ’’مستانہ ماہی‘‘ (1971) میں ’’ویدو‘‘ اپنے دوہرے کرداروں ڈاکیہ اور ڈاکٹر کے اہم پیشوں کے حامل کرداروں میں خوب انصاف کرتے دکھائی دیئے۔ یہ بھی خوب اتفاق ہے کہ ’’ویدو‘‘ نے اپنی بطور ہیرو پہلی اُردو فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ (1964) کے لئے بھی بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا اور اپنی پہلی پنجابی فلم ’’مستانہ ماہی‘‘ کے لئے بھی بہترین اداکاری کے عوض نگار ایوارڈ حاصل کیا جو ایک منفرد اعزاز ہے۔ ویدو جس کردار ہٹ ہوجاتے تو کوشش کرتے تھے کہ اگلی فلم میں ویسا ہی کردار اُنہیں نہ ملے۔ جس کی بہت سی مثالیں یہاں دی جاسکتی ہیں۔ صرف ایک مثال یہاں دیتے ہیں کہ فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ میں وہ ایک غریب اور ہمدرد گدھا گاڑی چلانے والے کے کردار میں نگینے کی مانند انگوٹھی میں فٹ ہوئے اور اس کے بعد ’’ارمان‘‘ (پہلی پلاٹینم جوبلی فلم) میں وہ ایک کھلنڈرے رومانی طبیعت رکھنے والے نوجوان کے کردار میں خوب جچے۔ ویدو نے اپنی ہر پرفارمنس میں ورائٹی کو ہمیشہ ترجیح دی۔ انگلش ادب میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری کے حامل ویدو شوق ہی شوق میں شعبہ اداکاری سے ایسے منسلک ہوئے کہ وہ بالآخر اس فلم انڈسٹری کے ’’چاکلیٹی ہیرو‘‘ اور ’’لیڈی کلر‘‘ جیسے القابات سے نوازے گئے۔ وہ صرف کنگ آف سانگز پکچرائزیشن ہی نہ تھے بلکہ کنگ آف ٹریجک اور کنگ آف کامیڈی ڈرامہ بھی تھے۔ ’’ویدو‘‘ بہت سوشل تھے، بہت ہی کم شوبز تقاریب میں جاتے تھے، شوٹنگز سے فارغ ہو کر سیدھے اپنے گھر کی راہ لیتے جہاں سلمیٰ مراد، عالیہ، عادل مراد، والد اور والدہ اُن کے منتظر ہوتے۔ ویدو نے اپنی 43 سالہ زندگی کا ہر لمحہ یادگار اور خوشگوار گزارا، بچپن اپنے لحاظ سے لاڈلے پن میں گزرا، کیونکہ وہ والدین کے اکلوتے تھے۔ شرارتیں، حماقتیں، نادانیاں، بچپن اور لڑکپن میں کون نہیں کرتا اور ’’ویدو‘‘ نے بھی کیں اور ان کی پاداش میں والدین کی ڈانٹ بھی سہی۔ ویدو کی جوانی حصولِ تعلیم کے لئے تگ و دو کا اور مسلسل جہد کا دور تھا۔ اُن کے ذہن میں کچھ حاصل کرنے، کچھ بننے اور کچھ کر گزرنے کا درد تھا۔ اعلیٰ تربیت، بہترین گھریلو ماحول اور دستیاب وسائل کے ساتھ ویدو زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوئے اور یہی تعلیم اُنہیں آگے بڑھاتے لے گئی۔ ویدو نے زندگی میں کھویا کم اور پایا زیادہ۔ رب ذوالجلال نے ویدو کو عزت و احترام، شہرت، دولت غرضیکہ سب کچھ عطا کیا۔ سراپا شفقت ماں، ہمدرد مونس و غم خوار باپ، وفا شعار اور محبت کرنے والی شریک حیات، بیٹی جیسی رحمت اور بیٹے جیسی نعمت سے اُنہیں نوازا۔ وقت کی پابندی اور سچ کے ساتھ اصولوں پر کاربند رہنا ویدو کی کامیابی کی ضمانت بنے
نہ جانے کیا کہا تھا، ڈوبنے والے نے سمندر سے
کہ لہریں آج تک ساحل پہ آ کے سر پٹختی ہیں
ویدو اب اس دُنیا میں نہیں ہیں، 23 نومبر 1983ء کو وہ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔ کاش وہ آج بقیدِ حیات ہوتے تو شاید سب بدلا بدلا سا نہ ہوتا، 35 برس گزرنے کے بعد اُن کی یاد دلوں سے محو نہیں ہوتی، وہ فنکار ہی ایسے تھے
ورق ورق پہ تیری حقیقت، تیرا فسانہ، تیری ہی قربت
کتابِ ہستی جہاں سے کھولی، تیری ہی یادوں کا باب نکلا
گو کہ آسمانِ فلم پر بیک وقت کئی اسٹارز دمکتے ہیں مگر زیادہ روشن و تاب ناک اسٹار جو سب سے پہلے بصارت کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔ وہ اسٹار ویدو تھا۔ بزرگ بھی کہتے ہیں اور شنید بھی یہی ہے کہ رب ذوالجلال ایسے لوگ کم پیدا کرتا ہے جن میں نئی سوچ کی آبیاری کرنے کا حوصلہ ہو۔ بنا کسی صلہ کی اُمید رکھے، وقت اور توانائی خرچ کرنا کوئی معمولی بات نہیں اور ایسے لوگوں کو نہ سراہنا بذاتِ خود ایک بددیانتی ہے اور اس بددیانتی کا مرتکب ہونا کسی کو زیب نہیں دیتا۔ ویدو جیسے اسٹارز پاکستان کے لئے اور اس کی فلمی صنعت کے لئے کسی سرمائے سے کم نہ تھے اور فلمی تاریخ کے صفحات میں فلمی صنعت کے جہان دیدہ لوگوں کا ذکر جب بھی مورخ کرے گا تو اُن میں ویدو کا ذکر وہ ہمیشہ فخر و انبساط سے کرتا رہے گا
میں نے اُس ہیرو پہ لکھنے کی جسارت کی ہے
جس نے فن سے محبت، فن سے عبادت کی ہے
بقول احمد ندیم قاسمیؔ
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں، سمندر میں اُتر جاؤں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
ایسی وہ صبح جس کی کبھی رات نہیں ہوئی۔ ایسی ہی روشن صبح، ماہ نومبر کی 23 تاریخ کی صبح، وحید مراد اپنے مداحوں کو، اپنے پیاروں کو یادوں کے گردایہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر تنہا کر گئے
جب تم کو ہماری یاد آئے اور دل بھی تمہارا گھبرائے
سینے سے لگا کر یاد میری تصویر سے باتیں کر لینا
تم جن کو کبھی بھولو گے نہیں، ہم ایسی فلمیں ایسے نغمے چھوڑ چلے
چھوڑ چلے ہم چھوڑ چلے تو دُنیا تمہاری چھوڑ چلے
اور حقیقت تو یہ ہے کہ ویدو اپنی یادیں اپنی باتیں اپنے نغمات ان فلموں ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان، دوراھا، جاگ اٹھا انسان، انسانیت، پھر صبح ہوگی، جانِ آرزو، ماں باپ، اک نگینہ، نصیب اپنا اپنا، لاڈلہ، ماں بیٹا، عندلیب، شمع، جال، مستانہ ماہی، دولت اور دُنیا، شبانہ، ترانہ، نذرانہ، شیشے کا گھر، حقیقت، پھول میرے گلشن کا، جب جب پھول کھلے، خریدار، وقت، کنیز، سمندر، دیور بھابھی، دل میرا دھڑکن تیری، سالگرہ، بندگی، رشتہ ہے پیار کا، بہارو پھول برساؤ، محبت زندگی ہے، تم سلامت رہو، عورت راج، ناگ منی سمیت متعدد فلموں میں چھوڑ گئے ہیں۔
ان پر پکچرائز بعض مقبول نغمات کے بول ملاحظہ کرتے ہیں
گوری سمٹی جائے شرم سے دل کا بھید چھپائے ہم سے (ہیرا اور پتھر، احمد رشدی
اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم تمہارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے (ارمان، احمد رشدی
بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں (دو راھا، احمد رشدی
اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے (احسان، مہدی حسن
اے ابر کرم آج اتنا برس اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں (نصیب اپنا اپنا، احمد رشدی
یوں روٹھ نہ گوری مجھ سے دل ٹوٹ گیا جو تجھ سے (سمندر، احمد رشدی
دُنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں (جاگ اٹھا انسان، مہدی حسن
جھوم اے دل وہ میرا جانِ بہار آئے گا (دل میرا دھڑکن تیری، مسعود رانا
دل نہیں تو کوئی شیشہ کوئی پتھر ہی ملے (اک نگینہ، احمد رشدی
آخری بار مل رہے ہیں ہم آؤ پھر کیوں نہ مسکرا کے ملیں (اشارہ، مہدی حسن
سوچا تھا پیار نہ کریں گے ہم نہ کسی پہ مریں گے (لاڈلہ، احمد رشدی
کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے کچھ لوگ (عندلیب، احمد رشدی
میرا ایمان محبت ہے محبت کی قسم (ناگ منی، مہدی حسن
بی بی جی سلام میرے دل کے نام (دشمن، رجب عل
یہ لوگ بڑے ہم لوگوں پر ہنستے ہی رہے ہیں (وقت، مہدی حسن
اک بات کہوں دلدارا تیرے عشق نے ہم کو مارا (خریدار، اے نیئر
کرتے ہیں محبت سب ہی مگر ہر دل کو صلہ کب ملتا ہے (تم سلامت رہو، غلام علی
دل کو جلانا ہم نے چھوڑ دیا چھوڑ دیا (محبت زندگی ہے، احمد رشدی
اُسے دیکھا اُسے چاہا اُسے بھول گئے (جہاں تم وہاں ہم، احمد رشدی