Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

ایک ایسی بھی رہگزر آئے
جس پہ صورت مری نظر آئے

لوگ خوشیاں سمیٹتے ہیں جہاں
ہم وہاں سے بھی چشم تر آئے

اب تو یہ حال ہے شبِ فرقت!
خود کو دیکھوں تو آنکھ بھر آئے

چلتا رہتا ہوں اِس اُمید پہ میں
تو کسی راہ پر نظر آئے

کیا گلہ ہو کسی سے جب ہم خود
زندگی لے کے مختصر آئے

مِرا دل ہے مُراد سے خالی
سب درختوں ہی پر ثمر آئے

تو ہے کس حال میں، کہاں ہے تو
کون لے کر تری خبر آئے

کاش! اک روز میرے شانے پر
چاند چہرہ تِرا اُتر آئے

تجھ میں سانسیں مری اُتر جائیں
مجھ میں خوشبو تری اُتر آئے

—————-
رونقؔ حیات
—————-

سوچا تو دماغ جل رہا ہے
صہبا سے ایاغ جل رہا ہے

ہے اُس کی ہی بے رُخی کا پرتو
سینے میں جو داغ جل رہا ہے

ہے دیدۂ تر میں اس کا چہرہ
پانی میں چراغ جل رہا ہے

اے موجِ بہار، آتشِ گُل
تجھ رنگ سے باغ جل رہا ہے

اس شہر میں میرے دم سے جوہرؔ
اُردو کا چراغ جل رہا ہے

—————-

ڈاکٹر شوکت اللہ خاں جوہرؔ 

—————-

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل