ایک ایسی بھی رہگزر آئے
جس پہ صورت مری نظر آئے
لوگ خوشیاں سمیٹتے ہیں جہاں
ہم وہاں سے بھی چشم تر آئے
اب تو یہ حال ہے شبِ فرقت!
خود کو دیکھوں تو آنکھ بھر آئے
چلتا رہتا ہوں اِس اُمید پہ میں
تو کسی راہ پر نظر آئے
کیا گلہ ہو کسی سے جب ہم خود
زندگی لے کے مختصر آئے
مِرا دل ہے مُراد سے خالی
سب درختوں ہی پر ثمر آئے
تو ہے کس حال میں، کہاں ہے تو
کون لے کر تری خبر آئے
کاش! اک روز میرے شانے پر
چاند چہرہ تِرا اُتر آئے
تجھ میں سانسیں مری اُتر جائیں
مجھ میں خوشبو تری اُتر آئے
—————-
رونقؔ حیات
—————-
سوچا تو دماغ جل رہا ہے
صہبا سے ایاغ جل رہا ہے
ہے اُس کی ہی بے رُخی کا پرتو
سینے میں جو داغ جل رہا ہے
ہے دیدۂ تر میں اس کا چہرہ
پانی میں چراغ جل رہا ہے
اے موجِ بہار، آتشِ گُل
تجھ رنگ سے باغ جل رہا ہے
اس شہر میں میرے دم سے جوہرؔ
اُردو کا چراغ جل رہا ہے
—————-
ڈاکٹر شوکت اللہ خاں جوہرؔ
—————-