Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

اِدھر سے اپنے ٹھکانے اُدھر بدلتے ہیں
خراب رُت میں پرندے بھی گھر بدلتے ہیں

جہاں کی یوں تو ہر اک شئے بدلتی رہتی ہے
مقدروں کے ستارے کدھر بدلتے ہیں

عجیب لوگ ہیں اس کشورِ تمنا کے
جو روز ایک نیا راہبر بدلتے ہیں

سرشت اپنی بدلتے نہیں یہ زر زادے
فقط مناظر دیوار و در بدلتے ہیں

کہاں وہ لوگ جو بے لوث دوستی کیلئے
بڑے سبھاؤ سے دستارِ سر بدلتے ہیں

گئے وہ دن کہ حسینوں کو ان سے رغبت تھی
کہ اب تو شہر میں دل اور جگر بدلتے ہیں

اگر یقین نہیں ہے تو آزما دیکھو
کب اپنی بات سے کاوشؔ عمر بدلتے ہیں

———————-
کاوشؔ عمر
———————-

پھول ہو شبنم ہو سب میں غم نظر آیا مجھے
میں نے دامن جس کا دیکھا نم نظر آیا مجھے

واہ ری قسمت، کہ میرا آشیانہ کیا بنا
گلستاں کا گلستاں برہم نظر آیا مجھے

سوچ کر ہر رُخ سے کشتی تہہ نشیں کرنی پڑی
ایک ہی ساحل یہ مستحکم نظر آیا مجھے

میں نے جب دیکھا قفس سے آشیاں والوں کی سمت
اپنا اُن کا ایک ہی عالم نظر آیا مجھے

لاکھ الزامات دنیا نے تراشے اے بہارؔ !
اُن کا دامن، دامنِ مریم نظر آیا مجھے
o
کسی سے رازِ غم کہتا نہیں ہوں
میں آنسو ہوں مگر بہتا نہیں ہوں

مرا چہرہ بتا دیتا ہے سب کچھ
میں چپ رہ کر بھی چپ رہتا نہیں ہوں

مری ہمت، کہ میں دریا میں رہ کر
مثال خاروخس بہتا نہیں ہوں

مجھے جب یاد آجاتا ہے ماضی
میں اپنے حال میں رہتا نہیں ہوں

———————-
بہارؔ شاہجہانپوری

———————-

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل