ڈاکٹر آصف چنڑ
دنیا بھر میں مچھروں کی 3 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سے 70 فیصد مچھر ڈینگی وائرس ایڈیز ایجپٹی ہیں، ان خطرناک مچھروں کی تین اقسام ہوتی ہیں، جن میں ایڈیز ایجپٹی (اگپتی ایڈیس ) اینو فلیز (انوفلیس ) اور کیولیکس (کولیز) شامل ہیں۔
یہ مچھر پانی کے جہاز اور ٹرینوں سے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں، ڈینگی وائرس پھیلانے والی مادہ مچھر 22 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں انڈے نہیں دیتی جس کی وجہ سے ان مچھروں کی افزائش کا عمل رک جاتا ہے، تاہم ان مچھروں کے دیئے جانے والے انڈے محفوظ رہتے ہیں اور اپنی نسل کی افزائش کے لئے بہترین موسم کا انتظار کرتے ہیں، اگست سے دسمبر تک ان مچھروں کے انڈوں سے تیزی سے افزائش ہوتی ہے تاہم سرد موسم میں ان کی افزائش نسل رک جاتی ہے، ڈینگی وائرس کا سبب بننے والی مادہ مچھر کو اپنے انڈے دینے کے لئے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے، مادہ مچھر پروٹین کی تلاش میں انڈے کے مقام سے 25 سے 30 کلومیٹر دور پالتوں جانوروں، بھینسوں کے باڑوں میں جانوروں کا کاٹ کر اپنی غذا اور پروٹین کو حاصل کرتی ہے، تاہم جانور نہ ملنے کی صورت میں مادہ مچھر انسانوں کو کاٹتی ہے تو اپنے ڈنگ سے 8 سے 10 سیکنڈ کے لئے اس جگہ کو سن کر دیتی ہے اور اس دوران اس کے سیلیویا میں پیرا سائیٹ کو منتقل کر دیتی ہے جو انسانی جسم میں 2 سے 7 دن تک کی سائیکل مکمل کرلیتا ہے، انسانی قوت مدافعت کمزور ہونے سے جگر بھی متاثر ہوتا ہے۔
پاکستان میں 1994ء میں پہلی مرتبہ ڈینگی سے متاثرہ افراد دیکھے گئے، تاہم یہ وائرس سب سے پہلے فلپائن اور تھائی لینڈ میں پایا گیا تھا، جو بعدازاں لاطینی امریکہ سے مصر میں منتقل ہوگیا۔ ڈینگی وائرس کی 1950ء میں پہلی بار ایشیائی ممالک میں تشخیص کی گئی تھی، یہ وائرس سب سے پہلے فلپائن اور تھائی لینڈ میں پایا گیا تھا جس کے بعد ڈینگی وائرس تیزی سے بھارت، پاکستان، افریقہ، مشرق و سطیٰ، جنوب مشرق ایشیا اور ویسٹرن پیسفک کے 100 سے زائد ممالک میں پھیل گیا۔
ڈینگی کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ مناسب آگاہی اور حفاظتی تدابیر کا نہ ہونا ہے، جس کے باعث عام سی بیماری مہلک اور خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے۔ دراصل ڈینگی ایک انفیکشن ہے، جو ایک خاص وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ بیماری ایک مخصوص مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے، جس کی ٹانگیں عام مچھروں کی نسبت ذرا لمبی ہوتی ہیں۔ پھر کسی متاثرہ شخص کو کاٹنے سے یہ وائرس اس مچھر میں آجاتا ہے اور اس کے بعد اگر یہ مچھر کسی دوسرے شخص کو کاٹ لے تو یہ وائرس اس میں منتقل ہوجاتا ہے۔
ڈینگی بخار عموماً ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ چار مختلف اقسام کے وائرس انسانوں میں ڈینگی بخار کا باعث بنتے ہیں۔ ایک قسم کے وائرس کا حملہ صرف ایک بار ہی ہوسکتا ہے۔ دوسری مرتبہ ڈینگی بخار دوسری قسم کے وائرس سے ہوسکتا ہے اور یوں زندگی میں کسی بھی شخص کو زیادہ سے زیادہ چار مرتبہ یہ عارضہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ڈینگی بخار کا دوسرا نام بریک بون فیور (بریک بون فیور ) بھی ہے۔
اسے یہ نام اس لئے دیا جاتا ہے کہ اس بخار کے دوران ہڈیوں اور پٹھوں میں اتنا شدید درد ہوتا ہے کہ ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور یہ مرحلہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ بیماری گرم اور نیم گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے اور دنیا بھر میں دس کروڑ سے زائد افراد ہر سال اس سے متاثر ہوتے ہیں تاہم بروقت علاج سے اس مرض سے صحت یابی کا تناسب بہت زیادہ ہے اور 99 فیصد مریض اس سے مکمل طور پر صحت یات ہوجاتے ہیں۔ یعنی ایک فیصد سے بھی کم لوگوں میں یہ مہلک شکل اختیار کرتا ہے۔ دیگر مچھروں کے برعکس ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بڑا صفائی پسند ہوتا ہے، گندے تالابوں اور جوہڑوں کی بجائے یہ مچھر گھریلو واٹر کولر، ٹینکوں کے قرب و جوار، صاف پانی سے بھرے برتنوں، پودوں کے گملوں، غسل خانوں اور بارش کے صاف پانی میں تقریباً سارا سال ہی پلتا رہتا ہے تاہم برسات کے موسم میں تیزی سے افزائش نسل کرتا ہے۔ عموماً یہ مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کیونکہ مچھر دن کے کسی بھی حصے میں کاٹ سکتے ہیں۔ وائرس زدہ مچھر کے صرف ایک ہی بار کاٹنے سے یہ بیماری انسان میں منتقل ہوجاتی ہے۔ یہاں اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بیماری براہ راست ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہوتی بلکہ مخصوص مچھر ہی اس کے انتقال کا باعث بنتا ہے۔ اس لئے ڈینگی سے متاثرہ مریض سے علیحدہ ہونے کے بجائے مچھروں کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات جو مریض کو علیحدہ رکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ متاثرہ شخص کو کاٹ کر مچھر مزید بیماری پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔ وائرس کو لے جانے والے مچھر کے کاٹنے کے چار سے سات روز کے اندر ڈینگی کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔
ان علامات میں تیز بخار، سردی لگنا، جسم میں شدید درد اور کمزوری، بیماری کے پہلے گھنٹے کے دوران ٹانگوں اور جوڑوں میں شدید درد، سر درد اور بعض مریضوں میں آنکھوں کے پیچھے شدید دور، منہ کا ذائقہ کڑوا ہونا، رفتار قلب میں کمی، چہرہ سرخ ہو جانا یا ہلکے گلابی رنگ کے دانوں سے بھر جانا شامل ہے۔ ڈینگی بخار کی یہ علامات دو تا چاردن رہنے کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔ مریض کو پسینہ زیادہ آتا ہے اور نارمل محسوس کرنے لگتا ہے مگر بہتری کی یہ حالت تقریباً ایک دن رہتی ہے، جس کے بعد بخار دوبارہ تیزی سے چڑھ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی جسم پر باریک دانے نمودار ہوجاتے ہیں۔ اس بار چہرہ محفوظ رہتا ہے البتہ ہتھیلیاں اور مسوڑھے سوج کر سرخ ہوجاتے ہیں۔
ڈینگی بخار کی شدید شکل جو بہت خطرناک اور جان لیوا ہوسکتی ہے اسے ڈینگی ہیمریجک فیور (ڈینگی ھمورّگیک فیور ) کہتے ہیں۔ اس سے دس سال کی عمر تک کے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی نمایاں علامات میں آنکھوں کے پیچھے شدید درد، پیٹ درد اور جسم کے مختلف حصوں دانتوں، مسوڑھوں، ناک اور مقعد سے خون رسنا ہے، جس سے خون میں پلیٹلیٹ ذرات کی مقدار خطرناک حد تک کم ہوسکتی ہے۔ خون کی نالیوں سے خون رسنے سے ان میں موجود پانی باہر رستا ہے جس سے خون کے دباؤ میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
اس حالت کو ڈینگی شاک سیندروم کہا جاتا ہے جوکہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ البتہ اس کی شرح بہت کم ہے۔ ایسی حالت میں مریض کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے اور آکسیجن لگانے یا خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈینگی بخار کی تشخیص دو طریقوں سے ہوتی ہے۔ مریض کی علامات سے اور لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے۔ ابتدا میں اس کا انحصار علامات پر ہوتا ہے جیسے بخار جلد پر سرخ دھبے بننا، جسم میں درد اور آنکھوں کے پیچھے درد وغیرہ۔ خون کے ٹیسٹ میں پلاٹلیٹس کی تعداد میں کمی ہونے سے تشخیص ہوتی ہے۔
دوسری قسم کے ٹیسٹ میں ڈینگی کے خلاف خون میں اینٹی باڈیز کی شناخت کرنا ہے۔ سب سے زیادہ کیا جانے والا ٹیسٹ ڈینگی اگم کہلاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اگر ابتدائی علامات میں کروا لیا جائے تو نیگیٹو بھی ہوسکتا ہے کیونکہ عام طور پر اس اینٹی باڈی کو جسم میں بننے اور شناخت کرنے میں چار سے پانچ دن لگتے ہیں۔ اس بیماری کے علاج کے لئے مریض کو سپپورٹوے تھراپی دی جاتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ پانی اور دوسرے مشروبات کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ پیراسیٹامول کی ضرورت پڑتی ہے۔
اگر مریض زیادہ کھا پی نہ رہا ہو تو ڈریپ لگانی چاہئے۔ اگر پلتیٹس بہت کم ہوجائیں، جس سے خون جاری ہونے کا احتمال ہو تو اس صورت میں پلاٹلیٹس کی ڈریپ لگانا ضروری ہوجاتا ہے۔ مریض کو مسلسل زیرنگرانی رکھ کر اس کے خون کے دباؤ، درجہ حرارت اور خون کے نظام کو نارمل رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مریض کو دوا لگی مچھر دانی میں رکھنا چاہئے۔
پرہیز علاج سے یقیناً بہتر ہوتا ہے اور ڈینگی بخار کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس سے بچاؤ تب ہی ممکن ہے جب ہم اس کے مخصوص مچھر کو پھلنے پھولنے سے روک دیں۔ اس سے اہم بات ایسی جگہوں پر اسپرے ہے جہاں مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح کھڑے پانی کو نکالنے کا انتظام کیا جائے۔ مچھر دانی کا استعمال کیا جائے، گھروں میں گملوں کا پانی روزانہ تبدیل کیا جائے۔ ڈینگی کی علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر مستند معالج سے رابطہ کیا جائے۔
اگر ہم اپنے اردگرد ماحول کی صفائی کا خیال رکھیں تو اس سے نہ صرف ہم ڈینگی بخار بلکہ بہت سی دیگر بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر ڈینگی بخار کی تشخیص ہوجائے تو گھبرانے کی بجائے بروقت علاج اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہیءں۔ اس طرح ہم باآسانی اس مرض کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
ڈینگی وائرس بخار کی علامات شروع میں اس طرح ہوتی ہیں۔تیز بخار، سر درد، آنکھوں کے ڈھیلے میں شدید درد، تمام جسم کی ہڈیاں اور گوشت یہاں تک جوڑ جوڑ میں درد، بھوک کا مر جانا اور متلی ہونا، گردن میں اکڑاؤ آجاتا ہے اور نیند نہیں آتی۔
ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو یہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اس مرض پر قابو پانا صرف حکومت کے بس میں نہیں بلکہ پوری آبادی کو شعور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں کہ مچھروں کی افزائش نہ ہو اور وہ خود مچھروں کے کاٹنے سے بچیں۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ جہاں جہاں پانی کھڑا ہے وہاں اسپرے کریں اور عوام کا کام ہے کہ ایسی جگہوں کی نشاندہی کریں اور گھروں میں صاف پانی کو ڈھانپ کر رکھیں کیونکہ یہ مچھر صاف پانی میں ہی ہوتے ہیں، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور این جی اوز کا بھی یہ فرض ہے کہ عوام کو اس مرض کے بارے میں بتائیں اور اس سے بچنے اور اس کے برقت علاج کا شعور دیں۔