شعلہ نفس رہے، کبھی آتش بجاں رہے
غلطاں لہو میں شہرِ نگاراں کو دیکھ کر
چشمِ وفا سے خون کے آنسو رواں رہے
منزل کی سمت جو بھی مسافر ہو گامزن
ہمت اٹل تو دل میں ارادہ جواں رہے
فرصت ملی نہ اس کے عذابوں سے دو گھڑی
جب تک رہے جہاں میں، اسیر جہاں رہے
اے کاش! اپنی موت سے پہلے جہان میں
وہ کام کر چلوں کہ مری داستاں رہے
جب غم سے دل جلے گا تو نکلے گی آہ بھی
ممکن نہیں کہ آگ میں چھپ کر دھواں رہے
دنیائے رنگ و نور میں جو شاہکار تھے
شاہوں کے وہ نقوش سلامت کہاں رہے
کب ان کی زندگی کو ملا کوئی پل قرار
زندہ جو درمیانِ یقین و گماں رہے
کہتے ہیں اہل ہوش کہ امرِ محال ہے
دنیا میں کوئی تاج محل جاوداں رہے
کاوشؔ مجھے عزیز نہیں شہرت و نمود
کیا فائدہ جو دہر میں نام و نشاں رہے
کراچی کے معروف سینئر شاعر، اورنگی ٹاؤن کا بے مثال سرمایہ اور دنیائے ادب کا ایک معتبر نام کاوشؔ عمر آج ہم سے جدا ہوگیا۔ کاوشؔ عمر اُردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ تھے۔ ان کے جانے سے ادب میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہ ہوسکے گا۔ وہ 1939ء میں سابق مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پھرپور ادبی زندگی گزاری اور 68 سال تک ادب کی خدمت کرتے رہے۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے، ساری زندگی درس و تدریس سے وابستہ رہے اور کئی رسائل اور اخبارات میں بحیثیت ایڈیٹر اور انچارج ادب بھی اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ نہ صرف اُردو بلکہ فارسی زبان پر بھی مکمل دسترس رکھتے تھے، ان کی دو کتابیں ’’سنگ و سمن‘‘ اور ’’ بحرِ خوں‘‘ منظر عام پر آکر داد سمیٹ چکی ہیں جبکہ دو کتابیں زیرِطبع ہیں۔ ان کا شمار استاد الشعراء میں ہوتا تھا، وہ انتہائی زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے لواحقین میں بیوہ کے علاوہ چار بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ان کی ایک بیٹی سحرؔ علی بھی ادبی دُنیا کا ایک معتبر نام ہے۔ مسلح افواج کے مثالی کارناموں پر مبنی کتاب کی تحریر کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے اعتراف میں اور آپ کی قلمی کاوشوں کی حوصلہ افزائی کیلئے چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نعمان بشیر کی جانب سے تعریف خط اور اعزازی طور پر دس ہزار کا چیک انہیں دیا گیا نیز کمانڈر کراچی نے بھی زاویۂ نگاہ کے دفتر میں انہیں دس ہزار کا چیک دیا اور ان سے بالمشافہ ملاقات کی تھی جبکہ سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے بھی شیلڈ اور مبلغ ایک لاکھ روپے کا چیک عنایت کیا۔ ان کی تدفین اورنگی ٹاؤن کے مقامی قبرستان میں ہوئی۔ جنازے میں عام لوگوں کے علاوہ شہرِ کراچی کی ادبی شخصیات نے بھی شرکت کی جن میں یوسف راہی ؔ چاٹگامی، نورالہدیٰ سیّد، جاوید رسول جوہرؔ ، محبوب حسین محبوبؔ ، علی ساحلؔ ، مہتاب عالم مہتابؔ ، شکیلؔ مدنی، اسلام مضطرؔ ، ابنِ عظیم فاطمیؔ ، عثمانؔ قیصر، قمرالزماں پیہمؔ ، مظہر عباس اور محمد علی سوزؔ شامل تھے۔