Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نامور فلمی موسیقاران

شیخ لیاقت علی

برصغیر پاک و ہند میں فلمی موسیقی کی ترویج و ترقی میں خصوصاً پنجاب اور بنگال سے تعلق رکھنے والے نامور موسیقاران نے اپنی کاوشوں سے اس خطے میں موسیقی کے عروج کے لئے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ پنجاب کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر، رشید عطرے، بابا غلام احمد چشتی، خواجہ خورشید انور، اے حمید، حسن لطیف، ماسٹر عنایت حسین، ماسٹر عبداللہ، صفدر حسین، ایم اشرف، اختر حسین اکھیاں، تصدق حسین، رحمن ورما، سلیم اقبال، پرویز نظامی، کمال احمد، میاں شہریار، نذیر علی، بنگال بالخصوص سابق مشرقی پاکستان کے موسیقاران روبن گھوش، بشیر احمد، دیبو بھٹا چاریہ، کریم شہاب الدین، مصلح الدین، سبل داس، علی حسین اور خان عطا الرحمن، صوبہ سندھ سے غلام نبی عبداللطیف، لال محمد اقبال، سہیل رعنا، نثار بزمی، ناشاد اور اسی خطے کے بعض نامور موسیقار ماسٹر منظور حسین، خلیل احمد اور رفیق غزنوی کی خدمات موسیقی کے لئے یاد رکھنے کے قابل ہیں۔
مذکورہ بالا موسیقاران میں خیبرپختونخوا سے سہیل رعنا حیات ہیں جوکہ طویل عرصے سے کینیڈا میں سکونت پذیر ہیں۔ ماسٹر غلام حسین نے تقسیم ہند سے قبل بعض فلموں میں قابل تعریف موسیقی دی جن میں سورگ کی سیڑھی، مجنوں، گل بکاؤلی، یملا جٹ، چوہدری، خزانچی، خاندان، زمیندار، پونجی، ہمایوں، بھائی، جگ بیتی، بیرم خان، منجدھار، مہندی شامل ہیں۔ پاکستان میں انہوں نے بے قرار، اکیلی، بھیگی پلکیں، خانہ بدوش، غلام اور گلنار کی موسیقی دی۔ ’’دل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا، ظالم زمانہ ہے یہ ظالم زمانہ‘‘ یہ دو گانا فلم بے قرار کے لئے ماسٹر غلام حیدر نے منور سلطانہ اور علی بخش ظہور سے گوایا تھا۔ اسی فلم میں انہوں نے منور سلطانہ سے یہ سدابہار گانا بھی گوایا ’’او پردیسیا او پردیسیا بھول نہ جانا، بھول نہ جانا‘‘ گلنار میں ماسٹر صاحب نے ملکہ ترنم نورجہاں سے حسب ذیل گیت گوائے جو بے حد مشہور ہوئے۔
لو چل دیئے وہ ہم کو تسلی دیئے بغیر، اک چاند چھپ گیا تھا اُجالا کئے بغیر
بچپن کی یادگاروں میں تم کو ڈھونڈتی ہوں تم بھی مجھے پکارو
رشید عطرے نے بھی تقسیم ہند سے قبل کچھ فلموں کی موسیقی دی جن میں پگلی، شیریں فرہاد، نتیجہ، روم نمبر 1، پارو اور شکایت شامل ہیں۔ پاکستان میں اُن کی پہلی فلم بیلی اور آخری فلم بہشت (1974) ہیں۔ اُن کی دلآویز موسیقی سے آراستہ فلموں میں شہری بابو، روحی، چن ماہی، سرفروش، سات لاکھ، وعدہ، انارکلی، سکھڑا، نیند، شام ڈھلے، شہید، سلمیٰ، گلفام، پائل کی جھنکار، موسیقار، قیدی، محبوب، فرنگی، گہرا داغ، آزاد، جیدار، ہزار داستان، الہلال، سوال، چٹان، گناہ گار، مرزا جٹ، محل، ظالم، باؤ جی، زرقا وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے فلم ’’چنگیز خان‘‘ میں شاعر طفیل ہوشیار پوری کا یہ ترانہ عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں سے زبردست گویا اور یہ ترانہ بعدازاں ہماری مسلح افواج کے ملٹری بینڈ کا مارچنگ ٹیون بنا۔
’’اللہ کی رحمت کا سایہ، توحید کا پرچم لہرایا، اے مرد مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘
بابا غلام احمد چشتی نے بھی تقسیم ہند سے قبل بعض فلموں میں موسیقی دی، جن میں سوہنی مہینوال، پردیسی ڈھولا، چمبے دی کلی، پٹولا، خاموشی، سنچلی، شکریہ، کلیاں، البیلی، ضد اور جھوٹی قسمیں شامل ہیں۔ پاکستان میں اُن کی پہلی فلم ’’سچائی‘‘ تھی۔ بعدازاں انہوں نے پھیرے، لارے، نوکر، لخت جگر، دلا بھٹی، یکے والی، پتن، ماہی منڈا، مس 56، سسی، نغمہ دل، مٹی دیاں سورتاں، ڈاچی، ماں پتر، چن پتر، ذیلدار، ظلم دا بدلہ، جندجان، سجن پیارا، چن مکھناں سمیت متعدد اردو اور پنجابی فلموں کو اپنی موسیقی سے سجایا۔ فلم ’’ڈاچی‘‘ میں انہوں نے مسعود رانا سے یہ مایہ ناز گیت گوایا تھا۔
او ہو او ہو ٹانگے والا خیر منگدا، ٹانگہ لاہور دا ہووئے کہ پاویں جھنگ دا، ٹانگے والا خیر منگدا۔
خواجہ خورشید انور نے بھی تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں بعض فلموں میں اپنی منفرد موسیقی کا جادو جگایا جن میں کڑمائی، اشارا، پرکھ، یتیم، آج اور کل، پروانہ، پگڈنڈی، سنگھار، نشانہ اور نیلم پری (1953) شامل ہیں۔ پاکستان میں ’’انتظار‘‘ بطور موسیقار اُن کی اولین فلم تھی جس کے سارے ہی گیتوں نے دھوم مچا دی تھی۔ مادام نورجہاں سے خواجہ صاحب نے ایک سے بڑھ کے ایک گیت ’’انتظار‘‘ میں گوائے۔ اس فلم کے علاوہ خواجہ صاحب نے زہر عشق، گھونگھٹ، کوئل، جھومر، مرزا صاحبان، ایاز، حویلی، چنگاری، ہمراز، سرحد، گڈو، ہیر رانجھا، سلام محبت، پرائی آگ، شیریں فرھاد، حیدر علی اور مرزا جٹ کی مسحورکن موسیقی دی۔ انتظار سمیت کوئل، جھومر، ایاز، گھونگھٹ، ہیر رانجھا کی موسیقی تو اب تک کانوں میں رس گھولتی ہے۔
اے حمید نے سال 1957ء میں فلم ’’انجام‘‘ سے بطور موسیقار کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد اُردو اور پنجابی فلموں کی لاجواب موسیقی دی، جن میں بالخصوص رات کے راہی، سہیلی، اولاد، آشیانہ، دوستی، پیغام، عید مبارک، ہونہار، بیاگن، شریک حیات، زندگی ایک سفر ہے، اولاد، توبہ، شبنم، غرناطہ، یہ امن، سماج، زخمی، انگارے، بہن بھائی، ضرورت، بیگم جان، وحشی، سنگدل شامل ہیں۔
حسن لطیف کی بطور موسیقار فلم جدائی 1950ء سے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے پنجرہ، آواز دیوار، دربار حبیب، نور اسلام (اس فلم میں انہوں نے سلیم رضا سے شاعر تنویر نقوی کا یہ نعتیہ کلام انتہائی اثرانگیزی کے ساتھ گوایا: شاہِ مدینہ شاہِ مدینہ، یثرب کے والی سارے نبی تیرے در کے سوالی شاہِ مدینہ شاہِ مدینہ) تمنا، نئی لڑکی لکن میٹی، شمع، عزت، سوہنی کمہارن، سسرال، شکوہ، ساز و آواز، تیرے شہر میں، ماں بہو اور بیٹا، کرشمہ میں زندہ ہوں وغیرہ کی موسیقی دی۔
ماسٹر عنایت حسین نے تقسیم ہند سے پہلے فلم کملی کی موسیقی دی۔ پاکستان میں فلم ہچکولے 1949ء سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور اس کے علاوہ شمی، محبوبہ، گمنام انتقام، قاتل، انارکلی، عذرا، نائیلہ، دل میرا دھڑکن تیری، عشق پر زور نہیں، اک تیرا سہارا، دیور بھابھی، معصوم، سیما جان آرزو، دل بے تاب، پاک دامن،، آنسو بن گئے موتی، نجمہ، دوشیزہ، رواج، عالیہ، جادو اور حق مہر سمیت متعدد فلموں کو اپنی موسیقی سے آراستہ کیا۔
ماسٹر عبداللہ نے فلم سورج مکھی سے کیریئر کا آغاز کیا۔ اُن کے کریڈٹ پر واہ بھئی واہ، ملنگی، ضدی جھلی، لاڈو، کمانڈر، زندگی، شریف بدمعاش، بدل گیا انسان، غازی علم دین شہید، قسمت، اک سی چور، شیشے کا گھر جیسی فلمیں شامل ہیں۔ رونا لیلیٰ نے فلم کمانڈر میں ماسٹر صاحب کی بنائی دھن پر کیا دلکش یہ گیت گایا تھا: جانِ من اتنا بتا دو محبت محبت محبت ہے کیا۔
صفدر حسین کی پہلی فلم ہیر (1955) ہے۔ عشق لیلیٰ، صابرہ، حاتم، حمیدہ، مراد، حسرت، ناگن، دل کے ٹکڑے، سرتاج، نغمہ صحرا، شب پنچر اُن کی موسیقی کے حوالے سے قابل ذکر کامیاب فلمیں ہیں۔
ایم اشرف نے فلم سپیرن (1961) سے ایک موسیقار ساتھی منظور کے ہمراہ مل کر منظور اشرف کے نام سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ 1968ء کی فلم سنگدل اُن کی سولو موسیقار پہلی فلم ہے۔ ایم اشرف کو پاکستان میں سب سے زیادہ فلموں میں موسیقی دینے کا منفرد اعزاز حاصل رہا ہے۔ اُن کی فلموں میں درد، نازنین، آرزو، دامن اور چنگاری، تم ہی ہو محبوب میرے، فرض اور مامتا (اس فلم میں انہوں نے نیئرہ نور اور کورس سے کلیم عثمانی کا لکھا یہ قومی نغمہ دلکش انداز سے گوایا اور یہ قومی نغمہ بھی اب مسلح افواج کی مارچنگ ٹیون کا حصہ ہے:
’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں‘‘
تحریر کے اب آخری حصے میں مذکورہ بالا موسیقاروں کے علاوہ باقیماندہ موسیقاران کو خراج تحسین ہم اُن کی بنائی ہوئی ایک ایک دھن کے تناظر میں کررہے ہیں:
ناچورے ناچو منوا، آج پیا گھر آئیورے
(دیوداس، آئرن پروین، قتیل شفائی، موسیقار اختر حسین رکھیاں)
یاد کرتا ہے زمانہ اُنہی انسانوں کو روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
(ہمرائی، مسعود رانا، مظفر وارثی، موسیقار تصدق حسین)
آج دل کو ملا دلدار کریں دل کی اُمنگیں سنگھار
(باغی، زبیدہ خانم، ساغر صدیقی، موسیقار رحمن ورما)
چندا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے باجی، نسیم بیگم، احمد راہی، موسیقار سلیم اقبال
چاندنی راتیں سب جگ سوئے ہم جاگے تاروں سے کریں باتیں
(دوپٹہ، نورجہاں، مشیر کاظمی، موسیقار فیروز نظامی)
گا مورے منوا گاتا جارے جانا ہے ہم کا دُور
(حیا اور طوفان، رنگیلا، شاعر رنگیلا، موسیقار کمال احمد)
نینوں میں جل بھر آئے مورکھ من تڑپائے
(بے گناہ، نسیم بیگم، سید عاشور کاظمی، موسیقار شہریار)
تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں
(آنسو، مسعود رنا، خواجہ پرویز، موسیقار نذیر علی)
پیار بھرے دو شرمیلے نین، جن سے ملا میرے دل کو چین
(چاہت، مہدی حسن، خواجہ پرویز، موسیقار روبن گھوش)
یہ سماں پیارا پیارا یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی درشن، بشیر احمد، بی اے دیپ، موسیقار بشیر احمد
بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا
(بدنام، ثریا ملتانیکر، مسرور انور، موسیقار دیبو بھٹا چاریہ)
تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے
(چاند اور چاندنی، مسعود رانا، سرور بارہ بنکوی، موسیقار کریم شہاب الدین)
رات چلی ہے جھوم کے راہوں کو تیرے چوم کے آ بھی جا
(جوش احمد رشدی/ناہید نیازی، فیاض ہاشمی، موسیقار مصلح الدین)
بے کل رات بیتائی بے چین دن گزارا
(ایندھن، احمد رشدی، اختر یوسف، موسیقار سبل داس)
تم صد تو کررہے ہو ہم کیا تمہیں سنائیں داغ، مہدی حسن، اختر یوسف، موسیقار علی حسین
ہے یہ عالم تجھے بھلانے میں، اشک آتے ہیں مسکرانے میں
(نواب سراج الدولہ، فردوس بیگم، سرور بارہ بنکوی، موسیقار خان عطا الرحمن)
اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں
(آگ کا دریا، مسعود رانا، جوش ملیح آبادی، موسیقار غلام نبی عبداللطیف)
دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں
(جاگ اٹھا انسان، مہدی حسن، دُکھی پریم نگری، موسیقار لال محمد اقبال)
اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم، تمہارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے
(ارمان، احمد رشدی، مسرور انور، موسیقار سہیل رعنا)
ہو تمنا اور کیا جانِ تمنا آپ ہیں
(ایسا بھی ہوتا ہے، نورجہاں، فضل احمد کریم فضلی، موسیقار نثار بزمی)
میری زندگی ہے نغمہ میری زندگی ترانہ ساگرہ، نور جہاں، شیون رضوی، موسیقار ناشاد
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسین ہے
(سویرا، ایس بی جان، فیاض ہاشمی، موسیقار ماسٹر منظور حسین)
کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو
(آنچل، احمد رشدی، حمایت علی شاعر، موسیقار خلیل احمد)
اک بے دردی شیشۂ دل توڑ گیا آس ملا کر
(منڈی، خورشید بانو، مشیر کاظمی، موسیقار رفیق غزنوی)
نوٹ: اس تحریر میں مذکورہ موسیقاران میں سلیم اقبال، غلام نبی، عبداللطیف اور لال محمد اقبال دو دو موسیقاروں کی جوڑیاں تھیں۔ یعنی سلیم حسن اقبال حسن، غلام نبی، عبداللطیف اور لال محمد، بلند اقبال۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل