Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے غضب کیا 

نعیم ابرار

کمپیوٹر اور انٹرنیٹ آتے ہی مداری اور کٹھ پتلی سمیت سب تماشے ختم ہوگئے (لیکن سیاست تو ہے) اب صرف ایک ہی تماشا جاری ہے، وہ ہے انٹرنیٹ کا اور یہ تماشا بڑھتا جائے گا۔ ماں باپ، میاں بیوی کے فاصلے بڑھتے ہی جائیں گے۔ پہلے وقتوں میں سانپ کا تماشا دکھانے والا گھر گھر جاتا اور زہر نکلا سانپ گھر میں چھوڑ دیتا پھر اس کو تلاش کیا جاتا، گھر والوں کو سپیرا زہر نکالنے کا نہیں بتاتا تھا، یہ اس کا ’’بزنس سیکرٹ‘‘ تھا، جس طرح سوشل میڈیا کے ہوتے تماشا رہتا ہے۔ سب گھر والے اور سپیرا مل کر سانپ تلاش کرتے ہیں، زہر نکالنے کی ہمیں سوجھی وہ بھی اس طرح کہ سپیرا سانپ بے فکری سے بچوں کی جانب اچھال دیتا، کسی کو ہمارے سامنے تو نہیں ڈسا تھا سانپ نے، سپیرے کی بے فکری کا ایک جواز ہوسکتا ہے؟ رہی جنتر منتر کی بات تو اس پر یقین رکھنے والی بیبیاں بھی کئی ہوتی تھیں، لیکن یقین سے کچھ نہیں ہوتا عملی مظاہرہ ہونا چاہئے۔ یقین کا۔ اور بیشتر عملی مظاہرہ کرتی تھیں۔ وہ سانپ والے کے ساتھ سانپ تلاش کرتیں، یوں موٹی نہیں ہوتی تھیں۔ انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز کی نسل تو کھاتی اور غراتی یعنی موٹی ہوتی جاتی ہے۔
سپیرے کے پاس کئی ’’سوغاتیں‘‘ ہوتی تھیں، جنہیں وہ ’’گیدڑ سنگھی‘‘ کہہ کر ’’جنتر منتر‘‘ کے زور پر ان خواتین کو بیچ دیتا۔ بیچتا کہاں تھا ہدیہ کردیتا تھا، ضرورت کی کوئی چیز لے کر۔
کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور چینلز نے کچھ نہیں کیا، یہ زارینہ کا کہنا تھا صرف جسمانی سرگرمیاں ختم کی ہیں اور فربہ نسلیں پیدا کی ہیں۔ ’’صرف‘‘ کا جواب نہیں زارینہ کے۔ انہوں نے اس ضمن میں کہا کہ ’’قبضہ گروپ‘‘ سے سانپ بھی تعلق رکھتا ہے؟ ہم نے ان کا شک دْور کرتے ہوئے کہا، سانپ ہی کا تعلق ہے۔
زارینہ کے قصے کافی مشہور ہوگئے ہیں، انہوں نے ایک قصہ اور سنایا، ’’ان کے پاس جب کچھ پیسے جڑتے وہ اپنے بیٹے کی شادی کا خواب دیکھنے لگتے، کبھی ہال کی بکنگ اور کبھی کھانے کا خرچ۔ لیکن لڑکی کی کمی رہ گئی تھی وہ بھی کیا کرتے۔ لڑکا کچھ کرکے ہی نہیں دیتا تھا نہ پڑھ کے۔‘‘ ہم نے زارینہ کا قصہ سنا اور کہا، یہ تو ایسے ہی ہے جیسا ایک صاحب نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر رسی خریدی اور کہا، بس بکرے کی کمی رہ گئی ہے۔ ویسے بکرے اور دولہا میں کئی قدریں مشترک ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی قدر تو یہ کہ دونوں کو جلد یا بدیر کٹنا ہوتا ہے۔
زارینہ نے قصہ سنا کر کہا، غریب آدمی اور کیا کرے بکرا خریدنا اس کے بس میں نہ بیٹے کی شادی غریب عوام کے لیڈرز کو بھی غریب ہونا چاہیے انہیں پتا تو چلے آٹے دال کا بھاؤ۔
ہم نے کہا، تو کیا کریں۔ امیر آدمی 99 فیصد عوام کی طرح ہوجائے مگر اس میں محنت زیادہ ہوتی ہے، محنت کے لئے عوام تیار نہیں کب تیار ہوں گے؟۔
انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے بات چلتی ہے تو دور تک جاتی ہے۔ یہ بھی دور تک لے جاتا ہے۔
زارینہ نے قصہ سنایا، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سانپ اپنے بل میں چلا گیا، ہم نے دخل دیتے ہوئے پھر واضح کیا اور کہا لیکن سانپ کا اپنا بل ہوتا ہی نہیں اس کے پاس بل بنانے کی تنصیبات نہیں ہوتیں، وہ تو ’’قبضہ گروپ‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ نے وہ کہاوت سنی ہوگی کہ ’’قبضہ سچا دعویٰ جھوٹا‘‘ جس کے پاس بل بنانے کی تنصیبات نہ ہوں، اس کا بل کیسے ہوسکتا ہے؟ زارینہ نے قہر آلود نظروں سے ہمیں دیکھا، ہم سہم کر خاموش ہوگئے، انہوں نے قصہ جاری رکھا، انہوں نے کہا سانپ جیسے ہی اپنے بل میں گیا اس کو وہاں پہلے سے موجود مخلوق نے گردن سے پکڑ لیا۔ ہم سے رہا نہ گیا، ہم نے کہا وہ سانپ بھی انٹرنیٹ کی وجہ سے سست ہوگیا ہوگا۔ زارینہ نے حیرت انگیز طور پر ہماری تائید کی، حیرت انگیز اس لئے کہ کسی کی تائید ان کا مزاج نہیں۔ زارینہ نے قصہ جاری رکھا تھا تو وہاں پہلے سے موجود ایک جانور نے سانپ کی گردن مروڑتے ہوئے کہا، شوق تو ہیں بادشاہوں جیسے اور تنصیبات زیرو ’’جو شوق محل‘‘ میں رہنے کے رکھتے ہیں وہ دراصل ’’ہاتھی‘‘ پالتے ہیں۔ کم ازکم انہیں دروازے تو اونچے رکھنے ہی چاہئیں۔ یہ لیکچر سن کر سانپ کو سانپ سونگھ گیا۔ زارینہ گویا ہوئیں کہ قدرت نے ہر سیر کے لئے سوا سیر پیدا کیا ہے۔ اونٹ پہاڑ کے نیچے اب آیا؟ ہم نے کہا، ’’یہ سب تیسری دنیا کی سیاست ہے یعنی مال کا جال۔ زارینہ نے کہا، تیسری دنیا میں مال ہی کی سیاست ہوتی ہے؟ ہم نے کہا، جو نہیں کرتے ’’نیلسن منڈیلا‘‘ بن جاتے ہیں، ’’نیلسن منڈیلا بننا کافی آسان ہے‘‘ زارینہ نے کہا، بس قانون کی پابندی کریں۔ ہم نے سوچا قانون کی پابندی کیسے کریں؟

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل