سیدہ ایلیا کاظمی
انسان نے جتنا ظلم اپنے ماحول کے ساتھ کیا ہے اب اس کی وجہ سے انسان کا دھرتی پر رہنا محال ہوگیا ہے۔ زمین انسان کے لئے تنگ ہورہی ہے، جس دھرتی پر انسان رہتا ہے انسان نے اسے آلودہ کرکے تباہ کردیا ہے۔ ہم جن درختوں کی چھاؤں میں بیٹھتے تھے انہیں کاٹ کر ان کا نام و نشان مٹا دیا ہے، آج ہم شدید گرمی کا رونا روتے ہیں لیکن اپنے ماحول کے تحفظ کے لئے کچھ نہ کیا اور اسی غفلت میں کئی سال گزار دیئے، سورج کی حرارت میں سال بہ سال اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، کراچی میں موجودہ گرمی کی لہر سے 67 افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ 2015ء میں 1200 سے زائد افراد کراچی میں ہلاک ہوئے تھے۔ ماہرین گزشتہ کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کی وارننگ جاری کرتے آرہے ہیں لیکن ہماری حکومتوں نے اس طرف توجہ نہ دی اور ایسے ہی ماحول آلودہ ہوتا رہا، آئندہ آنے والے سالوں میں پاکستان میں دو قسم کے مسائل شدت اختیار کر جائیں گے، ایک ماحولیاتی آلودگی اور دوسرا پانی کا مسئلہ، یہ دو مسائل ایسے ہیں جن کی وجہ سے انسان زندگی کے ساتھ زمین پر زندہ اجسام چرند پرند اور درختوں کا بچنا بھی مشکل ہوجائے گا۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی تحقیق کے مطابق حالیہ صدی کے آخر تک پاکستان کے درجہ حرارت میں تین سے پانچ ڈگری تک کا اضافہ دیکھا جاسکتا ہے جس کے باعث پاکستان کے معاشی، سماجی اور صحت کے شعبے بُری طرح متاثر ہوں گے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے سبب گزشتہ کئی سالوں سے ہمیں سخت موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہمارے ہاں ضرورت کے وقت بارشوں کا نہ ہونا اور بے وقت بارشوں کی زیادتی، اسی طرح فیکٹریوں کے دھواں سے ستمبر کے مہینے میں اسموگ کا سامنا جبکہ اسی طرح گرمیوں کا سیزن وقت سے پہلے شروع ہونا اور سیلابوں کی صورتِ حال و دیگر وجوہات کی بنیاد پر ہمارا زرعی شعبہ کئی سالوں سے متاثر ہورہا ہے۔
ماہرین کے مطابق گرین ہاؤسز گیسوں کے اخراج کی وجہ سے درجہ حرارت میں بتدریج اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے زراعت کا شعبہ بُری طرح متاثر ہوا ہے، جس سے خوراک کی طلب پوری نہ ہونے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بالخصوص غریب ممالک کے عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی چار غذائی اجناس گندم، چاول، مکئی اور سویابین کی پیداوار میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران تشویشناک حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایشیا کے زرعی ممالک خصوصاً پاکستان اور بھارت میں آبپاشی کا نظام دریاؤں میں پانی کی قلت کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں اس وقت پانی کی قلت نہ صرف زرعی شعبہ کو ہے بلکہ انسانی آبادی کے لئے بھی مختلف شہروں میں پانی کم ہونے کے ساتھ مضر صحت ہوچکا ہے۔
بین الاقوامی جریدے ’’نیچر کلائمنٹ چینج‘‘ میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستان سمیت عالمی سطح پر ہر تین میں سے ایک فرد گرمی کی لہر کی وجہ سے متاثر ہورہا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں ہیٹ ویو اور ارلی وارننگ سسٹم نصب کرنے کے ساتھ ساتھ شجرکاری کو ہر سطح پر فروغ دینا انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ ماہرین کے مطابق گرمی کی لہر کی پیش گوئی اور اس کے متعلق عام لوگوں تک معلومات کی بروقت رسائی سے اس کے منفی اثرات کو بڑی حد تک قابو پا کر انسانی زندگیوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ موجودہ صدی سے پہلے سائنس دانوں نے ماحولیاتی آلودگی کے خطرات کے الرٹ دینے شروع کردیئے تھے لیکن ان کو کسی نے سنجیدگی کے طور پر نہیں لیا۔ ماہرین کی ایک جائزہ رپورٹ میں جس کو دنیا بھر کے 1300 غیرجانبدار ماہرین اور سائنسدانوں نے مرتب کیا تھا جس میں تمام ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ گزشتہ ڈھائی سو برسوں میں ہونے والی انسانی سرگرمیوں نے ہماری زمین کی حرارت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، جس کے منفی اثرات شروع ہوچکے ہیں۔ کینیڈا کے شہر وینکوورکی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے اسکول آف پاپولیشن اینڈ پبلک ہیلتھ کے ایک پروفیسر مائیکل براوئر نے کہا، ’’فضائی آلودگی اس وقت عالمی سطح پر انسانی صحت کے لحاظ سے چوتھا سب سے بڑا خطرہ ہے۔‘‘
عالمی سطح پر ایک سرگرم تھنک ٹینک ’’جرمن واچ‘‘ نے اپنے کلوبل کلائمنٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث 10 سب سے زیادہ غیرمحفوظ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جبکہ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ اگلے پندرہ برسوں میں پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 27 لاکھ سے تجاوز کرسکتی ہے۔ پاکستان اور ڈبلیو ڈبلیو ایف برطانیہ کی ایک مشترکہ رپورٹ ’’نیچر پاکستان پروجیکٹ‘‘ کے مطابق پاکستان میں سمندر کی سطح میں سالانہ 6 ملی میٹر اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں ساحلی علاقوں کی زمین آہستہ آہستہ سمندر برد ہورہی ہے۔
ایک بشر کئی شجر
ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور درجہ حرارت میں کمی لانے میں درختوں کا اہم کردار شامل ہے لیکن ہم دن بدن جنگلات کا صفایا کررہے ہیں، اس میں ٹمبر مافیا کا بہت بڑا کردار ہے۔ پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ملک میں 90 کی دہائی میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکڑ رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکڑ تک رہ گیا۔ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور سہولیات میں کمی کی وجہ سے دیہی آبادی شہروں کا رخ کررہی ہے، ایک وقت تھا ہماری دیہی آبادی 75 فیصد پر مشمل تھی، حالیہ مردم شماری میں اس میں کمی ہوئی۔ اب موجودہ دیہی آبادی 65 فیصد تک رہ گئی ہے۔ شہروں کے پھیلاؤ میں اضافے سے دیہی زمینیں کم ہورہی ہیں اور درخت کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا کر شہر آباد کئے جارہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور ایک بشر کے لئے کئی شجر ضرور ہونے چاہئیں۔ فیکٹری مالکان اور بھٹہ خشت کو درخت لگانے کا پابند کیا جائے اور سالانہ مخصوص تعداد میں درخت لگانے کا انہیں پابند کیا جائے، اسکولز، کالجز اور یونیورسٹی کے طلبا کو شجرکاری کرنے پر اضافی نمبرز دے کر درختوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، سڑکوں کے کنارے درخت لگانا لازمی قرار دیا جائے اور ساتھ ہی مقامی آبادی کو شامل کرکے ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ زرعی سہولیات، بلاسود قرض ان زمینداروں اور کاشت کاروں کو دیئے جائیں جس کے رقبہ کے گرد درخت وافر مقدار میں موجود ہوں اور قومی سطح پر پانچ سالہ درخت لگانے کا منصوبہ بنا کر کروڑوں درخت لگائے جائیں، ہم ایسے اقدامات اٹھا کر ماحولیاتی آلودگی کو کافی حد تک کم کرسکتے ہیں۔