روز و شب معرکۂ تو و من آراستہ ہے
عصرِ حاضر میں، ہوس کا چلن آراستہ ہے
بستیوں کو جو خرابوں میں بدل دیتے ہیں
ایسے فتنوں سے یہ دورِ فتن آراستہ ہے
مقتلِ شہر کی تصویر دکھاؤں کس کو
ہر قدم دار سجا ہے، رسن آراستہ ہے
شاہدِ امن کے گیسوئے پریشاں کی قسم
تیغ بیداد سے ہر تیغ زن آراستہ ہے
ایسی اجڑی ہے مرے شہر کی رونق، ابکے
گھر سجے ہیں نہ کوئی انجمن آراستہ ہے
کرچیاں بکھری ہیں ٹوٹے ہوئے آئینوں کی
کوئی شہناز نہ گلنارِ من آراستہ ہے
کیا سجائے کوئی ہونٹوں پہ محبت کی شفق
اہلِ نفرت کی جبیں پر شکن آراستہ ہے
پھول درکار نہیں اس کو سجانے کے لئے
مرنے والے کے لہو سے کفن آراستہ ہے
کیا اُجاڑیں گے اسے بادِخزاں کے جھونکے
زخم در زخم یہ دل کا چمن آراستہ ہے
آ رہے ہیں جو مری سمت یہ پتھر کاوشؔ
رنگِ خوں سے مرا دیوانہ پن آراستہ ہے
——————
کاوشؔ عمر
——————
اللہ کس قدر راحت کا گرویدہ ہوں میں
سر پہ سورج آگیا ہے اور خوابدیدہ ہوں میں
کتنے ہیں محسوس جو کرتے نہیں میرا وجود
کتنی آنکھیں ہیں، کہ جن سے ابھی پوشیدہ ہوں میں
ایک غم ایسا بھی ہے، دیتا ہے جو مجھ کو نشاط
اک خوشی ایسی بھی ہے جس سے کہ رنجیدہ ہوں میں
کون اپنے دل کے مندر میں سجائے گا مجھے
ایک پتھر اور وہ بھی نا ترا شیدہ ہوں میں
کوئی ضربِ آہنی مجھ کو نکالے اے بہارؔ !
اک شرارے کی طرح پتھر میں پوشیدہ ہوں میں
——————
بہارؔ شاہجہانپوری
——————