Wednesday, July 23, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

 

شہنائی کی گونج میں اک سکوں کی جھنکار اٹھی
تیرے گھر سے میرے گھر تک فرقت کی دیوار اٹھی

پیاس زمیں کی بجھ نہ سکی اور کھیت کی رونق بڑھ نہ سکی
اپنی گود میں پانی لے کر یوں تو گھٹا سو بار اٹھی

جنگل کے قانون میں رہ کر کس سے کریں انصاف طلب
پیارے سے اک باپ کی بیٹی آج سر بازار اٹھی

سوتے سوتے نیند بھی ٹوٹی سپنے بھی پھر ٹوٹ گئے
یادوں کے صحرا میں تیرے جسم کی جب مہکار اٹھی

تجھ سے مل کر مایوسی کا دشت اٹھا کے لایا ہوں
تجھ سے ملنے کی خواہش تو دل میں مرے بیکار اٹھی
—————————-
رونقؔ حیات

—————————-

 

کسی کے گھر میں میسر نہیں کہ شب میں جلے
دیئے بہت سے حویلی تری عقب میں جلے

کہاں کسی کی تمنا ہے دل جلے اس کا
میں چاہتا ہوں مرا دل تری طلب میں جلے

کسی کے گھر میں ہو کر اک دیا محبت کا
چراغ اس کی وفا کا نسب نسب میں جلے

زمانے بھر میں بچے گی کہیں نہ تاریکی
ہر ایک شخص اجالوں کی گر طلب میں جلے

تم ایک رات جلے ہو ہماری فرقت میں
تمام عمر تو ہم بھی جنونِ شب میں جلے

کسی بشر کو کوئی بے وفا نہ کہہ پائے
خدا کرے کہ وفا کا چراغ سب میں جلے

کسی کو اور بھی وارثؔ تلاش کر لینا
جو تیرے بعد بھی تیری طرح ادب میں جلے

—————————-
ڈاکٹر وارثؔ انصاری

—————————-

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل