Wednesday, July 23, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

آہ!۔۔۔ مشتاق احمد یوسفی

چار اگست 1923ء ٹونک۔۔ 20 جون 2018ء کراچی
حیرت ہے آج جام اجل وہ بھی گیا نسخہ بنا رہا تھا جو آبِ حیات کا

اُردو ادب کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے مورخین جب جب بھی طنز و مزاح اور انشا پردازی کو مذکور کریں گے تو وہ یقیناً یوسفی صاحب کے فکر و فن، طنز و مزاح اور شاندار و یادگار ’’عہد یوسفی‘‘ کو ہمیشہ سنہری حروف سے رقم کریں گے۔ یوسفی صاحب کا شمار بلاشبہ اُردو نثر کے اعلیٰ اور منتخب ترین نمائندوں میں کرسکتے ہیں۔ یوسفی صاحب کی تحریروں میں وہ ایسی کیا مخصوص بات ہے کہ جس کی وجہ سے اُردو ادب کے جہاں میں اُن کے عہد کو ’’عہد یوسفی‘‘ کہا گیا، تو اس ضمن میں نامور ادبی شخصیت مرحوم مشفق خواجہ نے کیا خوب اظہار خیال کیا ’’اگرچہ غالب کے خطوط سے لے کر رتن ناتھ سرشار کے بعض کرداروں، رسالہ ’’اوددھ پنچ‘‘ میں شائع ہونے والی تحریروں اور مرزا فرحت اللہ بیگ اور مرزا عظیم بیگ چغتائی کی نثر میں مزاح کے نمونے مختلف اشکال میں ملتے ہیں، لیکن یوسف صاحب سے پہلے کے لکھنے والوں میں سوائے پطرس بخاری، شفیق الرحمان اور شوکت تھانوی کے کسی قابل ذکر نثرنگار کی تحریروں کا زیادہ تر حصہ معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے ’’مزاح‘‘ کی تعریف پر پورا نہیں اترتا اور اگرچہ بعد کے دنوں میں مزاح میں طنز کی آمیزش بڑھتی چلی گئی لیکن ’’چراغ تلے‘‘ سے لے کر ’’آب گم‘‘ تک (اس وقت ابھی ’’شام شعر باراں‘‘ شائع نہیں ہوئی تھی) صرف چار کتابوں کی معرفت یوسفی صاحب نے جو نام اور مقام حاصل کیا ہے، اس کی کوئی اور مثال ان کی زندگی میں سامنے نہیں آئی۔ سو مزاح کے اس عہد کو ’’عہد یوسفی‘‘ کہنا بالکل بجا اور جائز ہے۔ 20 جون 2018ء بروز بدھ یہ زمین ایک اور آسماں کھا گئی، مسکراہٹیں بانٹنے اور بکھیرنے والے مشتاق احمد یوسفی ہر آنکھ میں آنسو چھوڑ گئے اور عہد یوسف یوں تمام ہوا۔ 4 اگست 1923ء کو بھارت کے قصبے ’’ٹونک‘‘ میں عبدالکریم خان یوسفی کے خانوادے میں یوسفی صاحب نے جنم لیا۔ والد صاحب نے اسکول ٹیچر کی حیثیت سے عملی میدان میں قدم رکھا۔ بعدازاں جب وہ پولیٹیکل سیکریٹری بنے تو تدریس کو خیرباد کہہ دیا۔ خاندانی زبان مارواڑی تھی۔ سال 1931ء میں یوسفی صاحب بمعہ خاندان ٹونک سے جے پور آگئے۔ اُن کے والد عبدالکریم خان ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے جے پور بلدیہ کے چیئرمین بنے اور جے پور قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کے فرائض بھی انجام دیئے۔ مشتاق احمد یوسفی نے ابتدائی تعلیم تو ٹونک ہی میں حاصل کی۔ جے پور کے مہاراجا ہائی اسکول سے انہوں نے شاندار نمبروں سے میٹرک پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ انہوں نے راجپوتانہ مہاراجا کالج جے پور سے آرٹس میں پاس کیا۔ یوسف صاحب یہ اعزاز رکھتے تھے کہ آگرہ یونیورسٹی سے بی اے میں اول سال 1949ء میں یوسف صاحب کو انڈین ایڈمنسٹریٹر سروس میں جاب کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول نہ کیا اور پاکستان ہجرت کرکے آگئے۔ سال 1950ء میں بینکاری کے شعبے سے عملی زندگی کا آغاز مسلم کمرشل بینک سے کیا۔ 3 مارچ 1954ء کو وہ چیف اکاؤنٹنٹ بنا دیئے گئے۔ 4 نومبر 1958ء کو یوسفی صاحب کی ترقی بطور انسپکٹر آف برانچز کردی گئی اور 24 اپریل 1962ء کو ایم سی بی کے اسسٹنٹ جنرل منیجر بنائے گئے۔ 31 دسمبر 1973ء کو وہ آسٹریلیا بینک لمیٹڈ (موجودہ الائیڈ بینک لمیٹڈ) کے مینجنگ ڈائریکٹر تعینات کئے گئے۔ سال 1979ء میں وہ بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی ) کے مستقل ایڈوائزر بنے اور اپریل 1990ء کو طویل ملازمت کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔ یوسف صاحب کی تصانیف میں ’’چراغ تلے‘‘، ’’خاکم بدہن‘‘، ’’زرگشت‘‘، ’’آب گم‘‘ اور ’’شامِ شعریاراں‘‘ شامل ہیں۔ آخرالذکر کتاب کی یادگار و شاندار تقریب رونمائی سال 2014ء میں عالمی اُردو کانفرنس کے دوران آرٹس کونسل آف پاکستان میں ہوئی جس میں یوسف صاحب ناسازی طبیعت کے باوجود شریک ہوئے۔ اُن کے عزیز دوست ڈاکٹر اسلم فرخی مرحوم کے بقول ’’میں نے اور آپ نے بھی بے شمار آدمی دیکھے ہیں، سبھی دیکھتے ہیں لیکن دو آدمی مجھے ایسے نظر آئے جنہیں میں انگریزی محاورے میں ’’اپ رائٹ‘‘ (اپ رائٹ) آدمی سمجھتا ہوں اور ان کا معترف ہوں، یوں ہی نہیں دل و جان سے،پہلے اپ رائٹ آدمی قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ ادیبوں اور شاعرون میں مجھے اپ رائٹ آدمی اپنے معاصرین اور اپنے دور میں جو نظر آئے ان میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں جناب مشتاق احمد یوسف، میں انہیں عصرحاضر کے ادب کا اپ رائٹ آدمی قرار دیتا ہوں، کیونکہ ان کے یہاں بھی استقامت اور دبدبہ دونوں بہت نمایاں ہیں، نمایاں کیا ہیں ان کی گفتار اور کردار کا جز و لازم ہیں۔‘‘ مشتاق احمد یوسف اپنے سینئرز میں شفیق الرحمان، پطرف بخاری، ابن انشا، رشید احمد صدیقی، سید ضمیر جعفری، کرنل محمد خان کی تحریروں کو بڑی رغبت سے پڑھا کرتے تھے۔ انگریزی ادب کے مزاح نگارون میں یوسف صاحب مارک ٹوئن کو اس صنف کا باوا آدم گردانتے تھے۔ اُن کے نزدیک مزاح طنز سے آگے کی چیز ہے اور برتر بھی۔ مشتاق احمد یوسف کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے صلے میں ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز، قائداعظم یادگاری میڈل اور پاکستان اکادمی ادبیات ایوارڈ سمیت متعدد دیگر اعزازات و ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انسان فانی ہے اور یہ دنیا بھی فانی ہے اور ہر فانی انسان کی طرح یوسف صاحب بھی اس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن وہ اپنی شگفتہ تحریروں کی بدولت تادیر زندہ و تابندہ رہیں گے۔ وہ ادب کے غنی بھی تھے اور عام زندگی میں بھی غنی تھے بقول ڈاکٹر اسلم فرخی مرحوم کہ ’’اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے ’’کمال فن‘‘ انعام ملا، انعام کے اعلان کے ساتھ ساتھ (پانچ لاکھ روپے کے نصف جس کے ڈھائی لائی ہوتے ہیں) وہیں کھڑے کھڑے اعلان کردیا کہ یہ رقم ایدھی ٹرسٹ کی نذر ہے اور یہ ایک دفعہ نہیں ہوا، متعدد مواقعوں پر یوسفی صاحب نے انعامی رقم کے ساتھ یہی سلوک کیا۔‘‘ یوسفی صاحب کے پسماندگان میں دو صاحبزادے ارشد اور سروش اور دو صاحبزادیاں سیما اور رخسانہ شامل ہیں۔ اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ اُردو ادب کی شاندار خدمات سرانجام دینے والے یوسفی صاحب کی بعض منتخب تحریروں سے شگفتہ جملوں کا انتخاب:
اللہ معاف کرے میں تو جب آعوذبااللہ من الشیطان الرجیم کہتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے رجیم سے مراد یہی (ریجیم) ہے۔
یوں تو میرا دادا بڑا جلال تھا، اس نے چھ خون کئے اور چھ ہی حج کئے، پھر قتل سے توبہ کرلی، کہتا تھا اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں، اب مجھ سے بار بار حج نہیں ہوتا۔
اندرون لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آرہی ہو اور دوسری جانب سے مرد تو درمیان میں صرف ’’نکاح‘‘ کی گنجائش بچتی ہے۔
دوزخ میں گنہگار عورتوں کو اُن کے اپنے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائے جائیں گے۔
بہت کم لیڈر ایسے گزرے ہیں جنہیں صحیح وقت پر مرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
سمجھدار آدمی نظر ہمیشہ نیچی اور نیت خراب رکھتا ہے۔
نہانے سے سو بیماریاں دور ہوجاتی ہیں لیکن نہ نہانے سے جو بیماریاں دور ہوتی ہیں اُن میں سے ایک ’’محبوبہ‘‘ بھی ہے۔
عالم اسلام میں ہم نے کسی بکرے کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا۔
میرے خیال میں بڈھے عاشق میں تین خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی جوان میں ہو ہی نہیں سکتیں، اول بے ضرر و بے طلب ہوتا ہے، دوم باوفا ہوتا ہے، سوم جانتے بوجھتے جس شدت اور یکسوئی سے وہ باؤلا ہوتا ہے وہ کسی جوان کے بس کا روگ نہیں‘‘ ضمیر جعفری بولے! ’’چوتھی خوبی تو آپ بھول ہی گئے، جلدی مر جاتا ہے۔‘‘
انٹرویو لینے والے صاحب نے اپنی چھگلیا کے اشارے سے ایک کرسی پر بیٹھنے کو کہا ہم تعظیماً بیٹھنے ہی والے تھے کہ ناگاہ اسی کرسی کی گہرائیوں سے ایک کتا اٹھ کھڑا ہوا اور ہمارے شانوں پر دونوں پنجے رکھ کر ہمارا گرد آلود منہ اپنی زبان سے صاف کیا۔ ’’مائی ڈاگ از ویری فرینڈلی‘‘ کتے سے تعارف کرانے کے بعد اس نے ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ لیا۔ کیسے ہو؟ کون ہو؟ کیا ہو؟ اور کیوں ہو؟ سوائے آخری سوال کے ہم نے تمام سوالات کے نہایت تسلی بخش جواب دیئے۔ ’’تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس بینک کو میں چلا رہا ہوں، مسٹر اصفہانی نہیں، خیر تم نے معاشیات پڑھی ہے‘‘؟ اس نے کہا۔
’’نو سر!‘‘
حساب میں بہت اچھے تھے؟
نو سر! حساب میں ہمیشہ رعایتی نمبروں سے پاس ہوا۔ حالانکہ انٹرمیڈیٹ سے لے کر ایم اے تک فرسٹ ڈویژن فرسٹ کیا۔‘‘
’’حساب میں فیل ہونے کے علاوہ تمہارے پاس اس پیشے کے لئے اور کیا کوالی فیکشن ہے؟ میں نے فلسفہ میں ایم اے کیا ہے۔
ہا ہا ہا! تمہارا سوشل بیک گراؤنڈ کیا ہے؟ کس خاندان سے تعلق ہے؟
’’میرا تعلق اپنے ہی خاندان سے ہے۔‘‘
’’سچ بولنے کا شکریہ!‘‘
اس نے ہماری درخواست میں سن پیدائش دیکھ کر اندوگیں لہجے میں کہا کہ ’’بائی دے وے، جس سال تم پیدا ہوئے اسی سال میرے باپ کا انتقال ہوا، بڑا منحوس سال تھا وہ!‘‘

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل