آگ کیسی شباب میں رکھ دی
زندگی اک عذاب میں رکھ دی
اس نے اپنی زبانِ خواہش بھی
صرف میرے خطاب میں رکھ دی
زندگی آپ کی محبت نے
مستقل اک سراب میں رکھ دی
صرف فرفت ہی اک، بجائے وصال
تو نے میرے حساب میں رکھ دی
تیری بے نام سی کشش کس نے
زندگی کی کتاب میں رکھ دی
ہر حسیں چیز کو پہننے کی
کیسی مستی شباب میں رکھ دی
وہ جسے بے نقاب ہونا تھا
وہی خواہش حجاب میں رکھ دی
یہ خُنک تاب حُسن کس کا تھا
جس کی، ضوماہتاب میں رکھ دی
سوزش دل نکال کر اپنی
میں نے چشم پُرآب میں رکھ دی
ہو اُسی کی طرح حسین کوئی
شرط یہ انتخاب میں رکھ دی
جس کو خواہش تھی پھول بننے کی
وہ کلی کیوں کتاب میں رکھ دی
دامن خواہشات پھیلا کر
زندگی خود عذاب میں رکھ دی
خواہش لذتِ وصال اپنی
اس نے میرے حساب میں رکھ دی
تیری خوشبو تھی ملکیت میری
تو نے وہ کیوں گلاب میں رکھ دی
جب مجھے بخش دی تھی یہ اس نے
زندگی کیوں حساب میں رکھ دی
زیست خود اک سوال تھی میری
زیست اپنی جواب میں رکھ دی
بے تغیر حیات، جامد تھی
اس لئے انقلاب میں رکھ دی
پھر تمہیں کس لئے شکایت ہے
زیست جب احتساب میں رکھ دی
تو نے خواہش میری محبت کی
کتنے گہرے حجاب میں رکھ دی
محسنؔ اعظم! یہ زندگی میری
کس لئے اس نے خواب میں رکھ دی
——————————
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی
——————————