میں نے اکثر اس بات پر سوچ و بچار کی کہ برطانیہ نے پاکستان کے مطالبہ کو قدرے آسانی سے کیوں قبول کیا، اگرچہ اس نے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے اور ان کی یادگاروں کو تباہ کرنے کی ہر کوشش کی چاہے وہ شاہی قلعہ لاہور ہو یا دہلی کا لال قلعہ ہو یا لاہور کا جہانگیر کا مقبرہ، نورجہاں کا مزار ہو یا اس سے ملحق باغات ہوں، اُن کو تباہ کیا اور تاج محل تک کو تباہ کرنے کے در پے تھا، پھر وہ کیسے پاکستان بنانے پر راضی ہوا، اس پر میری ابتدائی تحقیق یہ تھی کہ پاکستان کو بنانے میں اُس کے گریٹ گیم کی تکمیل بھی ہوتی تھی، اُسے روس کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنا تھا اس لئے اس نے بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنایا، اس کے بعد کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ پاکستان کے قیام میں سخت رکاوٹ نہ ڈالنے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اس کی اسٹرٹیجک ضرورت تھا، یعنی وہ مسلمان ہونے کے ناطے روس کو بحر عرب میں کسی صورت میں آنے نہیں دینا چاہتا تھا، اس کے علاوہ اس کے لئے ایک تجربہ یہ بھی تھا کہ پہلی مرتبہ پانچ لسانی گروپوں کے حامل مسلمانوں کو ملا کر ایک ملک بنانے کا تجربہ کیا جائے، جن میں سے ایک 1971ء میں عالمی سازش کے تحت الگ کردیا گیا، یہاں مسلمانوں کی جنگ آزادی کی کاوشوں پر کوئی حرف آنے کی بات نہیں کی جارہی، وہ اپنی جگہ ہماری خواہش مل جانے کی تھی اور مسلمانوں کا یہ خواب تھا کہ وہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی ابتدا پاکستان سے کریں، اس میں نکتہ یہ ہے کہ انگریز کیا سوچ رہا تھا، اب جبکہ پاکستان اور روس قریب آرہے ہیں اور برطانیہ کا گریٹ گیم ہوا میں تحلیل ہوگیا ہے اور پاکستان خود روس کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کا حصہ بنانے جارہا ہے تو اغیار پاکستان کے بچے ہوئے چار لسانی گروپوں اور اس کے علاوہ دوسرے تضادات کو ابھارنے میں لگ گیا ہے، اس میں اُس کے ساتھ امریکا، بھارت، افغانستان اور اسرائیل شامل ہیں، پاکستان پر ہائبرڈ جنگ مسلط کی ہوئی ہے، اگرچہ تاحال پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پا کر ایک بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے مگر ابھی یہ پاکستان کے دشمن نئی چالوں اور حرکتوں کے ساتھ میدانِ عمل میں آرہے ہیں، کرپشن کی وجہ سے ملک کھوکھلا ہوگیا ہے اور اس وقت پاکستان 91 بلین ڈالرز سے زیادہ کا مقروض ہے اُس کو بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہے جو آئی ایم ایف دے سکتی یا چین مگر جو کوئی بھی دے گا اُس کی بھاری قیمت وصول کرے گا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو اُس کی شرائط سخت ہوں گی اور وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہوں گی۔ تاہم اگر مخلوط جنگ کی بات کی جائے تو پاکستان دنیا کی واحد فوج ہے جس نے کمال جرأت مندی اور انتہائی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں کامیابی حاصل کرلی ہے، یہ کامیابی دُنیا کی کسی اور مسلح فوج کو حاصل نہیں ہوئی، پاکستانی افواج نے مسلکی اور لسانی جنگوں کو جس طرح قابو میں کیا ہے اور جس حکمت عملی سے کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔
اب طاغوتی قوتیں دوسری طرح سے حملہ آور ہیں، پاکستان کے اداروں کو دشنام دیا جارہا ہے کہ وہ ناکام ہوگئے ہیں، پہلے یہ کہ پاکستانی افواج ساری جنگیں ہار گئیں جو غلط بیانیہ ہے، 1965ء کی جنگ میں پاکستان جیت کے ہر زاویہ پر پورا اترا، ہنری کسنگر نے چھٹی عرب اسرائیل جنگ (2006) کے وقت جیت کی جو تعریف کی تھی وہ یہ کہ اسرائیل حزب اللہ پر حملہ آور ہوا مگر وہ کوئی بھی اسٹرٹیجک مقصد حاصل نہ کرسکا، حزب اللہ کا ایک لانچر بھی تباہ نہیں کرسکا، حملہ آور اسرائیل تھا اور فتح حزب اللہ کو حاصل ہوئی اسی طرح 65ء کی جنگ کی بات اس نکتہ پر ہوسکتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں چھیڑچھاڑ ہوئی مگر بھارت نے عالمی سرحدوں سے حملہ کیا اور اس کے ایک جنرل نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ لاہور پر قبضہ کرکے لاہور کے جیم خانے میں رات کو شراب پئے گا، وہ یہ اعلانیہ دعویٰ پورا نہ کرسکا، ہماری بحریہ اور فضائیہ سمندر اور فضا پر حکمرانی کرتی رہیں اور چونڈہ کی ٹینکوں کی بڑی جنگ میں بھی بھارت اپنے مقاصد پورے نہ کرسکا اُس کو دنیا نے شکست اور جیت کی درمیانی بات کہی مگر اور اس کی وہ تعریف بعدمیں درست مانی گئی جو ہنری کنسگر نے 2006ء میں کی تھی۔ اسی طرح روس کو افغانستان سے نکالنا مشرقی پاکستان کی شکست کا بدلہ لینا اور ایٹمی قوت بننا تو بڑے کام ہیں، جو لوگوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ تاہم اسے اس سے ماورا جو سرگرمیاں ہوں اس میں وہ ضرور چیک کی جانا چاہئے، میں نے کئی اداروں اور یونیورسٹی میں اپنے گفتگو میں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ 29 عرب بلاگرز نے عرب بہار لے کر آئے جس نے سات مسلمان ممالک کو متاثر کیا جن میں شام، عراق، لیبیا سب سے زیادہ لپیٹ میں آئے، اب اسی طرح کا کام کچھ اینکر حضرات جن کا خاندانی پس منظر اور جن کی تعلیم اور جن کی طبیعت میں جو کجی ہے وہ سامنے آرہی ہے، وہ ہمارے فیبرکس یعنی ہمارے معاشرے کے خدوخال کو بگاڑنے کی کوشش کررہے ہیں، چاہے وہ انجانے میں کررہے ہوں یا غیرارادی طور پر جس پر سختی کرنے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی ایک جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ پھر سندھ میں عدم توازن موجود ہے، پنجاب میں مسلم لیگ کے نااہل وزیراعظم کی تقاریر ایک منظر بتا رہی ہیں جو بالآخر ملک کے خلاف جا کر منتج ہوگا، پھر عمران خان کی پارٹی کی کمان و کنٹرول کا سامنا ہے اور پی پی پی نے سندھ کے پلڑے کو ایک طرف جھکا رکھا ہوا ہے۔ مزید برآں فاٹا کی پاکستان میں شمولیت اور دو جماعتوں کا اختلاف خطرے کی علامت اس کے علاوہ پشتونوں کے حوالے سے ایک تنظیم کو وقت پر قابو میں نہ کیا تو نقصان کا احتمال ہے، اس کے علاوہ گلگت بلتستان کو اگرچہ صوبہ جیسی مراعات دیدی گئی ہیں مگر وہاں پھر احتجاج کیا جارہا ہے جو ہمارے خیال سے غیرضروری ہے، اُن جیسے محب وطن لوگوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسا کوئی احتجاج کریں۔ ان لوگوں نے نہ صرف ڈوگرہ راجہ کو اپنے زورِ بازو سے ہرایا اور پھر ازخود اپنے آپ کو پاکستان میں شامل کیا۔ یہ وہ اعزاز ہے جو کسی اور صوبہ کے پاس نہیں، آزاد کشمیر میں مراعات دی گئی ہیں وہ اچھی ہیں اور وہاں سے خوش کن خبریں آرہی ہیں، اس کے بعد اسپائی ماسٹرز کی کتاب آگئی ہے جس کے بعد ایسے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں جن سے ہمارے خدوخال متاثر ہونے کا احتمال ہے۔ امریکا اور اس کے حواریوں نے جہاں کہیں بھی مداخلت کی ہے وہ خانہ جنگی کے ذریعے سے کی ہے، ملک میں موجود معاشرتی خدوخال کو بگاڑا ہے، مگر وہ یہاں تاحال وہ ناکام ہیں، اگرچہ اس کام میں تیزی آگئی ہے، عین ممکن ہے کہ خودکش حملے بڑھیں، لسانی و مسلکی بندوبست کو خراب کیا جائے، جس کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے جہاں بھی نقصانات آگ یا نفرت کا بھڑکانے کا رساؤ ہو اُسے فوری طور پر بند کر دینا چاہئے، یہ وقت کی سب بڑی ضرورت ہے جس کے لئے چند سال تک نہیں بلکہ کئی عشروں تک مستعد رہنا پڑے گا۔