عمر جاوید
فلسطین کے علاقے غزہ میں مارچ سے جاری مظاہروں میں روزبروز شدت آتی جارہی ہے۔ ان مظاہروں میں فلسطین کی تمام اہم تنظیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ یہ مظاہرے 15 مئی تک جا ری رہیں گے۔ 15 مئی کو فلسطینی ’’تباہی کے دن‘‘ کے طور پر یاد کرتے ہیں، کیونکہ اس سے ایک روز پہلے 14 مئی کو اسرا ئیل کی غیرفطری ریاست وجود میں لائی گئی تھی۔ 1948ء میں اس غیرفطری ریا ست کو وجود میں لانے کے لئے 760,000 فلسطینیوں کو ان کے گھروں، شہروں اور دیہاتوں سے بے دخل کیا گیا۔ ان مظا ہروں کا مقصد یہی ہے کہ بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں کو اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجا زت ملنی چاہئے۔ غزہ کی کل 19 لاکھ آبا دی میں سے 13 لاکھ آبا دی ایسے مہاجرین پر مشتمل ہے جن کو ان کے علاقوں سے بے دخل کیا گیا تھا۔ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کسی بھی آبادی کو جبری طور پر اس کے علاقے سے محروم نہیں کیا جا سکتا، اگر کسی جنگ یا خانہ جنگی کے باعث آبادی کا حصہ کسی اور جگہ پر پناہ لینے پر مجبور ہوجائے تو جنگ کے خاتمے کے بعد اس آبادی کا حق ہوتا ہے کہ وہ واپس اپنے علاقوں میں جا کر رہ سکے، مگر اسرائیل کی حکومتیں، فلسطینیوں کو ان کا یہ بنیادی حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں، کیونکہ اس طرح اسرائیل میں یہودی اکثریت میں نہیں رہیں گے۔
غزہ میں رہنے والے فلسطینی تقریباً ہر سال 15 مئی سے پہلے اس طرح کے مطالبات کرتے ہیں اور اس مطالبے کی حمایت میں مظاہرے بھی کئے جاتے ہیں مگر اس سال اسرائیل نے ان پُرامن مظاہروں پر بھرپور ریاستی تشدد کیا۔ چند روز کے اندر 50 سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا، جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ’’آئی ڈی ایف‘‘ یعنی اسرائیل ڈیفنس فورسز کو ان پُرامن مظاہروں پر گولیاں چلانے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ ان پُرامن مظاہروں میں اسرائیل کے ریاستی تشدد کو مغربی اور امریکی میڈیا میں کوئی کوریج نہیں مل رہی، اگر روس، چین، ایران، وینزویلا، شمالی کوریا یا دنیا کے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں امریکا کی حاکمیت کو قبول نہ کرنے والی حکومت اس طرح کی پُرتشدد کارروائیاں کررہی ہوتی تو امریکا، مغربی دنیا اور اقوام متحدہ نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا تاہم اس موقع پر امریکا کی مشہور اداکارہ نتالی پورٹ مین کو داد دینا پڑے گی جنہوں نے اسرائیل کے اس جبر کے خلاف اسرائیل میں ہونے والی ایوارڈ کی ایک تقریب میں شامل ہونے سے معذرت کرلی۔
اسرائیل کے محاصرے میں رہنے والے غزہ کے علاقے کو ’’دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل‘‘ بھی کہا جا تا ہے جہاں کی 19 لاکھ کے لگ بھگ آبادی انتہائی کٹھن زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی 44 فیصد آبادی مکمل طور پر بے روزگار ہے۔ 80 فیصد آبادی کا گزارا امداد اور خیرات سے ہوتا ہے۔ 40 کلومیٹر لمبائی کے علاقے پر مشتمل غزہ، مصر، بحیرہ روم اور اسرائیل میں گھرا ہوا ہے۔ مصر اور اسرائیل نے اپنی سرحدیں غزہ کے شہریوں کے لئے مکمل طور پر بند رکھی ہوئی ہیں۔ غزہ کا کو ئی شہری اسرائیل کی اجازت کے بغیر غزہ سے باہر نہیں جاسکتا، بلکہ کوئی بھی چیز، حتیٰ کہ خوارک، تیل، مشینری، پینے کا پانی اور دوائیاں بھی اسرائیل کی اجازت کے بغیر غزہ کے اندر نہیں لائی جاسکتیں۔ غزہ کی بجلی اور ٹیلی کمیونیکیشن بھی اسرائیل ہی کنٹرول کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کو پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ اسرائیل کی حکومت ان بنیادی ضروریات کی اشیا کو بھی بلیک میلنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق غزہ کی آبادی 2020ء تک 22 لاکھ سے بھی بڑھ جائے گی اور اگر یہی حالات رہے تو غزہ کے اندر انسانوں کا زندہ رہنا ممکن نہیں رہے گا۔1993ء کے ’’اوسلو معاہدے‘‘ کے تحت ’’فلسطین لبریشن آرگنائزیشن‘‘ اور فتح پارٹی کو مغربی کنارے اور غزہ کا محدود کنٹرول دیا گیا تھا۔ جس وقت یاسر عرفات نے یہ معاہدہ کیا اس وقت بھی فلسطین کی کئی قوم پرست تنظیموں نے اس معاہدے کو اسرائیل کی ایک چال سے تعبیر کیا تھا۔ اگر 1993ء کے بعد کے حالات کو دیکھا جائے تو فلسطینی قوم پرست تنظیموں کا یہ دعویٰ مکمل طور پر درست دکھا ئی دیتا ہے، بلکہ 2004ء میں یاسر عرفات کے انتقال کے بعد تو فتح پارٹی کا کردار اسرائیل کے ساتھ اس قدر مصالحانہ ہوگیا کہ اسے اسرائیل کی پراکسی قرار دیا جانے لگا۔ محمود عباس سمیت ’’فتح پارٹی‘‘ کے رہنماؤں پر کرپشن کے الزمات بھی لگنے لگے۔ ’’فتح پارٹی‘‘ کے ایسے سمجھوتوں اور کرپشن کے باعث حماس کو مضبوط ہونے کا موقع ملا اور 2006ء کے انتخابات میں اس نے کامیابی بھی حاصل کی۔
اگرچہ حماس پُرتشدد کارروائیاں کرنے کا ریکارڑ رکھتی تھی مگر دنیا میں کئی مزاحمتی تنظیموں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے مزاحمت کے طور پر تشدد کا راستہ اپنایا مگر پھر انتخابی دھارے میں شامل ہو کر خالص سیاسی رویہ اختیار کرلیا۔ جنوبی افریقہ کی افریقن نیشنل کانگریس، آئرش ری پبلکن آرمی، بھا رت میں آسام، پنجاب اور کئی ایسے تامل سیاست دانوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے ایک زمانے میں تشدد کا راستہ اپنایا مگر انتخابی دھارے میں شامل ہونے کے بعد ان کا رویہ سیاسی ہوگیا۔ حماس سے تو معاملہ کرنا اس لئے بھی آسان تھا کیونکہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد حماس نے متعدد مرتبہ اسرائیل اور امریکا کو بات چیت اور مذاکرات کرنے کی دعوت دی مگر ہر مرتبہ حماس سے معاملات طے کرنے سے انکار کیا جاتا رہا۔ اسرائیل 2006ء سے لے کر اب تک غزہ کے لوگوں پر ظلم و جبر کے پہا ڑ اس لئے توڑ رہا ہے کہ غزہ کے لوگوں نے حماس جیسی جماعت کو ووٹ دیئے جو فتح پارٹی کے برخلاف فلسطینی کاز سے غداری کرنے کے لئے تیار نہیں۔ دوسری طرف محمود عباس مغربی کنارے میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہونے والے عوامی ردعمل کو دبانے میں لگا ہوا ہے، حتیٰ کہ مغربی کنارے کے لوگوں کو اسرائیل کے خلاف پُرامن مظاہروں کی اجازت بھی نہیں دی جارہی، جہاں تک مشرق وسطیٰ کے شاہی حکمرانوں کا تعلق ہے تو وہ خطے میں فرقہ واریت کو پروان چڑھانے میں ہی لگے ہوئے ہیں ایسے میں ان کے پاس اتنی فرصت کہاں ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی اقدام اٹھائیں۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر مصر کے فوجی آمر السیسی کا کردار بھی منافقت پر مبنی ہے۔ السیسی کی جانب سے اسرائیلی جارحیت سے بچنے کے لئے غزہ کے سینکڑوں خاندانوں کو مصر میں پناہ لینے کی اجازت نہ دینا بھی انتہائی غیرانسانی رویہ ہے۔
اسرائیل کا فاشسٹ وزیراعظم نیتن یاہو غزہ میں جس ظلم کا ارتکاب کررہا ہے اس کا ایک اہم داخلی عامل یہ بھی ہے کہ نیتن یاہو کو اس وقت کرپشن کے سنگین الزامات اور مقدمات کا سامنا ہے۔ اسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے بھی ہورہے ہیں، ایسے میں اپنی کرپشن سے توجہ ہٹانے کے لئے نیتن یاہو نے غزہ میں وحشت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ اسرائیل کی ہر حکومت کی طرح نیتن یاہو کا بھی یہ مقصد ہے کہ حماس کی تنظیم کو مکمل طور پر تباہ کر کے غزہ کے 19 لاکھ فلسطینیوں کو بھی اسی طرح مکمل طور پر محصور کردیا جائے جیسے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت نے سیاہ فام افراد کو بنتوستان بنا کر ان میں ہی محصور کردیا تھا، مگر کیا کسی قوم کے جذبہ حریت کو فوجی قوت سے کچلا جاسکتا ہے؟ یقیناً تاریخ اس کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ فلسطینیوں کے جذبہ حریت کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔
اسرائیل بھلے ہی امریکا اور یورپی حکمرانوں کا چہیتا ہو مگر عوامی سطح پر وہاں بھی ایسے طبقات موجود ہیں جو فلسطینی مزاحمت کو انتہائی قدر سے نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت پر کسی بھی مسلمان ملک میں اتنے بڑے مظاہرے نہیں ہوتے جتنے یورپ کے شہروں میں ہوتے ہیں۔ فلسطینیوں کے جذبہ حریت سے دنیا بھر کی مزاحمتی تحریکیں آدرش حاصل کرتی رہی ہیں۔ 70 سال سے جاری اس فلسطینی مزاحمت نے ادب اور شا عری کے ایسے شاہکار نمونے تخلیق کئے ہیں جو دنیا بھر کے حریت پسندوں کے لہو کو گرماتے ہیں۔ مزاحمت اور حریت کے ان جذبوں کو ظلم و ستم سے ختم کرنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ جتنا زیادہ ظلم بڑھے گا مزاحمت کی شدت میں بھی اضافہ ہوگا۔