ملکی سیاست میں دو ملاقاتوں کی بازگشت
روزنامہ نئی بات کراچی، یکم اپریل 2018ء
اس وقت پاکستان کی سیاست میں دو ملاقاتوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ایک ملاقات فاروق ستار کی بہادر آباد کے بہادر لوگوں کے پاس پاس جانے کی اور دوسری طرف جناح ٹرمینل فاروق ستار کی مصطفی کمال سے ملاقات پھر ایک دبئی روانہ دوسرا سعودی عرب پرواز کر گیا۔ اس وقت ایم کیو ایم دو دو چار سے دوچار ہے تو دوسری طرف مصطفی کمال اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہیں اور بغیر ایجنڈے کے وہ ملتے نہیں۔ اس میں کوئی ابہام بھی نہیں کہ پہلے بھی مصطفی کمال نے بھی کیا ہے۔ بہرحال کچھ نیا ہونے والا ہے یا پرانے کو دہرایا جارہا ہے کیونکہ تین گروپ ایم کیو ایم کے کبھی بھی جیت نہیں سکیں گے اس کا فائدہ دوسری جماعتوں کو ہوگا۔ دوسری ملاقات وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کی ہوئی، جس کے بارے میں شاہد خاقان عباسی، چیف جسٹس اور نواز شریف تینوں مختلف موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ ’’فریادی‘‘ بن کر جانے والے وزیراعظم پاکستان نے کہا ہے کہ وہ عوامی مسائل کی فریاد لے کر گئے تھے۔ لیکن قائدحزب اختلاف خورشید شاہ کہتے ہیں ایک گھنٹہ پچاس منٹ تک صاف پانی اور کچرا پر تو نہیں ہوئی ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی نواز شریف سے اجازت لے کر گئے ہوں اور اس وعدے پر گئے ہوں کہ میں پل کا کردار ادا کرتا ہوں یا اس ملاقات میں کوئی وکیل ہی پل بنا ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم نے ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کی استدعا کی ہو۔ اور چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہو کہ ہم جو فیصلے دیں انہیں فوری طور پر عمل درآمد کرایا جائے۔ اور ویسے بھی موجودہ وزیراعظم کون سے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے یہ استدعا کی ہو کہ ہم پر نظر کرم کیجئے گا۔ مجھے معاف رکھئے گا۔ باقی جو آپ کہیں گے ٹھیک ہے۔ ادھر نااہل سابق وزیراعظم کے لہجے اور ان کی بیٹی کے ٹویٹ میں وہی لہجہ موجود ہے اور وہ اُسی باغیانہ روش پر قائم ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ انہیں بلوایا گیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم خود آئے ہیں لیکن منطقی طور پر سوچا جائے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو ملاقات کی کیا ضرورت ہے؟
معصوم بچیوں سے زیادتی اور قتل کے بڑھتے واقعات لمحہ فکریہ
روزنامہ نئی بات کراچی، 19 اپریل 2018ء
قصور کی ننھی پری کے ساتھ زیادتی اور بہیمانہ قتل کوئی پہلی واردات نہ تھی اگر پولیس اور قانون نے سخت اقدامات کئے ہوتے تو زینب بچ سکتی تھی لیکن اس کے بعد ایسی وارداتوں میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی تازہ مثال کراچی میں معصوم رابعہ کے ساتھ زیادتی اور اس کا قتل ہے۔ اسی طرح 12 سالہ بچی جس کی شناخت عروج کے نام سے ہوئی ہے اور اس کی لاش لاہور میں نہر سے ملی ہے، اس کی لاش پر تشدد کے نشانات ہیں، آئے روز ان واقعات کا سوسائٹی اور ریاست کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ سخت قانون تو موجود ہیں لیکن ان پر سختی سے عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے۔ بااثر افراد یا سیاسی شخصیات اس طرح سے کیسز کو ختم کروانے کی بجائے پشت پناہی کرتے ہین۔ میرے ذاتی خیالات میں یہ کام پیسے کے لئے کیا جارہا ہے۔ مذہب سے دوری اور معاشرے کا ڈھانچہ کمزور ہونے کی وجہ سے بچوں بالخصوص بچیوں کے لئے انتہائی خطرناک صورتِ حال بنتی جارہی ہے، اس کے لئے ملک، معاشرہ، والدین، اساتذہ، سوشل ورکرز اور میڈیا کو اپنا اپنا رول ادا کرنا چاہئے، ورنہ جس ڈگر پر ہم چل رہے ہیں یہ تباہی اور انتشار سے قاتل کی طرف بڑھ رہا ہے، ویسے بھی اللہ کا قانون ہے جب ایسے واقعات رونما ہونے لگیں تو عذاب نازل کئے جاتے ہیں، بچے سوسائٹی پالیتی ہے پورا معاشرہ پالتا ہے اگر ہمارے بچے غیرمحفوظ ہوجائیں گے تو معاشرے کی شکل کیسی ہوگی۔ ایسے واقعات کے پیچھے کوئی بہت بااثر افراد ہیں جو ایسی فلمیں بنا کر غیرملکی میڈیا کو فروخت کرتے ہیں جیسے عرب میں اونٹ دوڑ کے لئے بچوں کو بیچا جاتا تھا۔ والدین کو بھی بچوں کی حفاظت سونے چاندی کے زیورات کی طرح کرنی چاہئے۔ ملوث افراد کو جلد از جلد قرارواقعی سزا دینی چاہئے، جیسا ضیاء الحق نے پیوکیس میں کیا تھا اور اس میں کسی قسم کی رورعایت کی ضرورت نہیں۔ کراچی کروٹ لے رہا ہے کراچی جاگ رہا ہے اس پر بھوت کا سایہ ختم ہوگیا ہے اگر فوراً ایکشن نہ لیا گیا تو یہ آگ پورے ملک میں پھیل جائے گی۔ پھر امیر غریب اچھا بُرا کا فرق مٹ جائے گا حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر غور کرنا چاہئے۔