محسن فارانی
شاید ہی کسی امریکی صدر نے اپنے پہلے پندرہ ماہ کے اندر اتنے اعلیٰ سرکاری عہدیداران کی چھٹی کرائی ہو جتنے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے فارغ کیے ہیں۔ اس سے ٹرمپ کے مشکل ترین صدر ہونے کا تاثر ابھرتا ہے جس کے ساتھ نباہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ٹرمپ کا تازہ ترین شکار نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ایچ آر میک ماسٹر ہوئے ہیں۔ اب سوال اٹھنے لگے ہیں کہ ٹرمپ کا اگلا ہدف کون ہوگا۔ دیکھئے 20 جنوری 2017ء کو وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے والا ٹرمپ اب تک اور کن کن سے جان چھڑا چکا ہے۔
صدر ٹرمپ کا پہلا مشیر قومی سلامتی مائیکل فلائن تھا۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فلائن اس سے پہلے سابق صدر باراک حسین اوباما کا ڈیفنس انٹیلی جینس چیف تھا اور تب بھی اسے برطرف کردیا گیا تھا۔ فلائن صرف 22 دن ٹرمپ کا مشیر قومی سلامتی رہا اور 13 فروری 2017ء کو اسے ٹرمپ نے گھر کا راستہ دکھا دیا۔ گزشتہ صدارتی انتخاب میں اس کے روسیوں سے رابطوں کی تفتیش ہورہی تھی اور بالآخر اس نے اعتراف جرم کرلیا تھا اور یہ کہ اس نے ایف بی آئی سے جھوٹ بولا تھا۔ اس کے بارے میں امریکا میں عام تاثر یہ تھا کہ اس نے روسی حکام سے اپنے رابطوں اور ترکی کے لئے تنخواہ دار لابیئسٹ کا کردار ادا کرنے کے بارے میں جو جھوٹے بیان دیئے، ان پر وہ کمپرومائز کرسکتا ہے۔
رائنس پرائبس ریبپلکن نیشنل کمیٹی کا سابق چیئرمین تھا۔ اس وائٹ ہاؤس کے روزمرہ کے کام اور ٹرمپ کے دفتر کے دروازے کا کنٹرول تفویض کیا گیا تھا۔ لیکن پرائبس جو ٹرمپ کے اندرونی سرکل میں کبھی شامل نہ رہا تھا، وہ صدر ٹرمپ کے ٹوئٹس کرنے کے معاملے کو کنٹرول نہ کرسکا، جس کے نتیجے میں وائٹ ہاؤس کا ویسٹ ونگ ابتری کا شکار رہا۔ چنانچہ 13 جولائی 2017ء کو اسے فارغ خطی دے دی گئی اور اس کی جگہ میرین کور کے جنرل کیلی نے لے لی جس نے اوول آفس میں ایک طرح کا نظم و ضبط پیدا کر دکھایا ہے اگرچہ بعض اہل خبر اس کے مستقبل کو بھی تاریک بتاتے ہیں۔
ٹرمپ کا چیف اسٹریٹجسٹ اسٹیو بینن ان کی عوامی انتخابی مہم اور صدارتی فتح کا معمار تھا۔ اسے وائٹ ہاؤس میں شہزادہ ظلمات (پرنس آف ڈارکنیس) اور ظلّی صدر (شیڈو پریذیڈنٹ) کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس کی ’’اکنامک نیشنلزم‘‘ پر ٹرمپ کی پالیسیوں کا دارومدار تھا، اگرچہ اس کے کئی دیگر تصورات کو ایڈمنسٹریشن میں اس کے حریف مسترد کر دیتے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں کیلی کی آمد کے بعد بینن کی دیگر مشیروں سے مسلسل جھڑپیں خوشگوار نہ تھیں، پھر انتہائی دائیں بازو والوں سے اس کے تعلقات کی بنیاد پر ٹرمپ کو موردِ الزام ٹھہرایا جانے لگا اور یہ کہا گیا کہ اسٹیو بینن نسل پرستی کی سرپرستی کرتے ہیں۔ نتیجتاً 18 اگست 2017ء کو اسٹیو بینن وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوگیا۔
گیری کوہن سرمایہ کاری کے بینک ’’گولڈ مین ساکس‘‘ کا سابق صدر تھا۔ اسے صدر ٹرمپ کا ٹاپ اکنامک ایڈوائزر مقرر کیا گیا تھا۔ اس نے 6 مارچ 2018ء کو بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا جب ٹرمپ نے نئے عالمی تجارتی محاصل لاگو کرنے کا فیصلہ کیا۔ کوہن نے طویل عرصہ ڈیمو کریٹک پارٹی میں گزارا تھا اور وہ شروع ہی سے موجودہ ر ی پبلکن انتظامیہ کے لئے موزوں نہ تھا جو تیز قدم نیشنلزم کی پالیسیوں کا پرچار کر کے جنوری 2017ء میں ایوان اقتدار میں آ براجی تھی۔ ٹرمپ نے فولاد اور ایلومینیم کی درآمد پر بھاری ٹیکس لگانے کا جو فیصلہ کیا، اس پر سابق وال اسٹریٹ بینکار کوہن کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا۔ پہلا بڑا اختلاف گزشتہ سال کے آخر میں ہوا تھا، جب صدر نے نیو نازیوں اور دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی مذمت کرنے سے احتراز کیا جنہوں نے اگست میں ورجینیا میں ایک تشدد آمیز ریلی نکالی تھی۔ کوہن ایک یہودی ہے، تب اس نے کہا تھا کہ وہ مستعفی ہونے پر غور کررہا ہے اور وہ لمحہ گزشتہ مارچ میں آ ہی گیا۔
وزیرخارجہ سیکریٹری آف اسٹیٹس ریکس ٹیلرسن 13 مارچ کو فارغ کردیئے گئے۔ ایکسون کمپنی کے سابق چیف ایگزیکٹو ٹیلرسن کا منصب ناخوشگوار رہا۔ پارہ مزاج صدر سے ان کی کم ہی بنی، چنانچہ ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہماری جوڑی اگرچہ ٹھیک ٹھاک رہی مگر ہم بعض باتوں پر متفق نہ ہوئے جن میں ایران نیوکلیئر ڈیل نمایاں ہے۔‘‘ صدر ٹرمپ ٹوئٹس کے ذریعے سے اچانک پالیسی میں تبدیلی کا اعلان کر دیتے تھے، جس پر ٹیلرسن کو خاصی خفت ہوتی کہ انہیں تبدیلی کا علم ہی نہیں ہوتا تھا۔ ایک چوٹی کے اہلکار نے کہا کہ ٹیلرسن نے صدر سے بات کرنا چھوڑ دی تھی۔ اس کے بعد ان کی برطرفی کا اعلان ہوگیا اور اس کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔
ٹرمپ کے اب تک کے آخری شکار مشیر قومی سلامتی میک ماسٹر امریکی فوج میں لیفٹیننٹ جنرل تھے۔ انہوں نے ایک معرکہ آرا کتاب لکھ کر جنگ ویتنام میں امریکی شکست کے لئے سیاستدانوں کو موردِالزم ٹھہرایا۔ میک ماسٹر نے 9 اپریل کو اپنا منصب چھوڑ دیا۔ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ہے کہ میک ماسٹر نے ’’ایک اعلیٰ منصب پر خدمات انجام دی ہیں۔‘‘ لیکن اس نے صدر کے ساتھ کبھی تیز بات نہیں کی تھی جو کسی پالیسی پر میک ماسٹر کا لیکچر سنتے ہی غصے کا اظہار کرتے تھے۔ میونخ میں ایک کانفرنس میں 55 سالہ میک ماسٹر نے امریکی انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی کرتے ہوئے بتایا: ’’اس میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ روس نے 2016ء کے الیکشن میں مداخلت کی تھی۔‘‘ اس پر ٹرمپ نے سختی سے تردید کی جوکہ اس تذکرے پر بھنّا اٹھتے ہیں کہ ماسکو نے ان کی فتح میں مدد دی تھی۔ میک ماسٹر کی رائے پر ٹرمپ کا ٹویٹ تھا: ’’جنرل میک ماسٹر یہ کہنا بھول گئے کہ روسی، الیکشن 2016ء کے نتائج پر اثر ڈال سکے نہ انہیں تبدیل کرسکے۔‘‘
اب میک ماسٹر کی جگہ جان بولٹن نے لے لی ہے۔ میک ماسٹر سرونگ آرمی آفیسر تھے۔ ان کے بارے میں توقع کی جارہی تھی کہ وہ سال کے آخر تک وائٹ ہاؤس چھوڑ دیں گے اور فوج میں واپس جا کر فور اسٹار جنرل کی ترقی پائیں گے لیکن ان کا پبلک لائف سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ ہر کسی کے لئے حیران کن ہے۔ انہوں نے ان گرمیوں میں امریکی فوج سے ریٹائرمنٹ کی درخواست کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہربرٹ ریمنڈ میک ماسٹر نے پہلی خلیجی جنگ (1991ء) میں ایک ٹینک بٹالین کی کمان کی تھی۔ ان کی کتاب ’’فریضہ بجا لانے سے گریز‘‘ (دیریلیکشن آف ڈیوٹی) میں بتایا گیا ہے کہ 1960ء کی دہائی میں واشنگٹن کی سیاست بازی نے ویت نام میں امریکی جنگی پلان کا ستیاناس کردیا تھا۔ نیز شمالی کوریا پر میک ماسٹر کا موقف اپنے شرکائے کار سے زیادہ سخت تھا۔ ان کے بقول ایٹمی خطرے کے خلاف ’’پیشگی ضرب‘‘ ضروری ہے اور یہ کہ ’’پیانگ یانگ‘‘ (دارالحکومت شمالی کوریا) کے ساتھ روایتی ڈیٹرنس (سدباب) والا معاملہ کام نہیں دے گا۔ دوسری طرف میک ماسٹر نے ایران نیوکلیئر ڈیل ختم کرنے کی ٹرمپ کی کوشش ناکام بنا دی تھی۔ انہوں نے ایک تقریر میں یہ بھی کہا: ’’طویل سرد جنگ کے بعد نام نہاد امن کے دور میں ہم نے تاریخ سے جو چھٹی لی تھی، اس کے بعد انتقام بھری عالمی سیاست ایک بار پھر لوٹ آئی ہے۔‘‘ انہی اسباب کی بنا پر امریکی انتظامیہ میں دائیں بازو کے عقاب انہیں نکال باہر کرنے کے در پے تھے۔ وہ انہیں ’’لبرل، اسرائیل کا دشمن اور ایران نواز‘‘ قرار دیتے تھے۔ امریکی سیکورٹی اور سرکاری پالیسی کی ماہر ہیدر ہرل برٹ وزیردفاع میٹس، ٹیلرسن اور میک ماسٹر کی مثلث کے بارے میں دلچسپ تبصرہ کرتی ہیں: ’’صدر صاحب اپنے سینئر ساتھیوں کو ایک دوسرے سے لڑانا پسند کرتے ہیں، چنانچہ ان لوگوں کو ایک کیج میچ (اکھاڑے) میں بند کردیا گیا تھا۔‘‘ میک ماسٹر نے نیویارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ’’خارجہ پالیسی پر ٹرمپ کی اپروچ نے ہم میں سے بہت سوں کا سکھ چین چھین لیا ہے۔‘‘ ان کا اشارہ سرد جنگ کے خاتمے (1991ء) کے بعد ٹرمپ کی نئی مہم جوئی کی طرف تھا۔ بہرحال میونخ کانفرنس میں میک ماسٹر کا تبصرہ ٹرمپ کو ہضم نہ ہوا اور دونوں کے راستے الگ ہوگئے