جب خمارِ عشق میں با تشنہ لب ساغر لیا
تب گمانِ وصل نے دو آتشہ منظر لیا
میں ارضِ شوق پر پودا لگا کر عشق کا
آسمانِ درد سے دامن کو اپنے بھر لیا
یہ جنونِ عاشقی آخر کہاں لے جائے گا
جو لگا الزام اس پر سارا اپنے سر لیا
دسترس میں کچھ نہیں تھا، سو محبت نے اثر
ہر طریقے سے مسلسل اپنے ہی دل پر لیا
قیس کے منصب پہ کیوں سمجھوں نہ خود کو، بولئے
دیکھ کر مجھ کو زمانے نے بھی جب پتھر لیا
رشکِ آہو بن گیا تھا سن کے چاہت کی خبر
الفتِ دل نے پھر اس کے گھر کا وہ چکر لیا
دردِ دل کو شکل و صورت یوں بھی دیتا ہے کوئی
جسم و جاں کاغذ بنا کر لفظ کا خنجر لیا
جادۂ آسودگی میں عاشق دلگیر نے
چھوڑ کر آسائشیں کانٹوں بھرا بستر لیا
جانتا تھا کون آسیؔ میری مجبوری مگر
دوستوں نے بھی کہانی کا مزہ سن کر لیا
———————
امتیاز الملک آسیؔ سلطانی
———————
شوق سے جاں وار دو اس پر جو خوش اخلاق ہے
جس کے طرزِ مہر کی کرتا ثنا آفاق ہے
زلزلے کا ہے نہ تو طوفان کا خدشہ کوئی
جانے پھر کیوں درد و غم میں قوم استغراق ہے
تہمت و غیبت برتنا دین و ایماں کا ہے قتل
اہلِ دل اہلِ نظر کو بھی گزرتا شاق ہے
عہد کرتے ہو کرو ایفا کا بھی لیکن ہو غم
عظمتِ انسانیت ہے خوبی میثاق ہے
ہاتھ ملتے آئے دن وہ شخص ہے دیکھا گیا
طیش میں آ کر کیا اولاد کو جو عاق ہے
عزم استقلال، محنت سعی پیہم کے بغیر
عمر بھر کوئی نہیں فرقانؔ ہوتا طاق ہے
———————
فرقانؔ ادریسی
———————