Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ڈپریشن۔۔ خراب آپشن

علی عمران جونیئر
دوستو، ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق 34 فیصد آبادی ڈپریشن میں مبتلا ہے، اس رپورٹ میں مردوں سے زیادہ خواتین کو ڈپریشن کا شکار بتایا گیا ہے۔ رپورٹ میں پانچ کروڑ پاکستانیوں کو عمومی ذہنی امراض میں مبتلا بتایا گیا ہے، جس میں 57 فیصد خواتین شامل ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ملک میں ماہرین نفسیات صرف 800 کی تعداد میں ہیں، جہاں تک بچوں کی نفسیات کا تعلق ہے تو 40 لاکھ بچوں کے علاج کیلئے ایک سائیکاٹریسٹ موجود ہے اور پاکستان میں پوری آبادی کیلئے چار اسپتال نفسیات کے علاج کی سہولت مہیا کررہے ہیں۔ ڈپریشن کی بڑی وجوہ میں بیروزگاری، بیماری، غربت، بے گھر ہونا اور خاندانی تنازعات ہیں۔ سال بھر میں پاکستان کے 35 شہروں میں 300 لوگوں کی خودکشی کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ اکثریت کی عمریں 30 سال سے کم تھیں جبکہ مرنے والوں میں غیرشادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ رپورٹ میں جو کچھ بتایا گیا ہے اس میں ہمارے کالم کیلئے موضوعات تو بہت ہیں، جیسا کہ 57 فیصد خواتین ذہنی امراض کا شکار ہیں، خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر غیرشادی شدہ مرد اور خواتین زیادہ تر شادی شدہ ہوتی ہیں لیکن ہم بات کریں گے ڈپریشن کی۔ جب ہم نے اپنے پیارے دوست سے اس خبر کو ڈسکس کیا تو انہوں نے اپنی منطق جھاڑی، کہنے لگے، اگر میاں بیوی کی ایک اولاد ہوگی تو اس کا مطلب ہے رپورٹ کے مطابق وہ ڈپریشن کا شکار ہوگا۔ پیارے دوست نے ہر تیسرے پاکستانی کو اپنے معنوں میں ہمیں سمجھانے کی کوشش کی۔ ڈپریشن کو ہم دماغی فتور بھی کہتے ہیں، کسی بھی ایسی چیز کو جو ابھی ہوئی نہیں ہم پہلے سے اسے دماغ پہ سوار کرلیتے ہیں اور اس سے متعلق سوچ سوچ کے ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو کھچڑی ایک ایسی ڈش ہے جو فی زمانہ کچن میں کم لیکن لوگوں کے دماغوں میں زیادہ پکتی ہے۔ جب اس نے کہا تمہارے سارے غم، پریشانیاں میں دور کردوں گی، ہم نے اپنے کریڈٹ کارڈ اور یوٹیلیٹی بلز اسے تھما دیئے۔ شوہر جب گھر پہنچا تو کہنے لگا۔ بیگم کھانا لگاؤ سخت بھوک لگی ہے۔ بیگم نے کہا، گیس نہیں ہے اور کھانا نہیں پک سکا۔ شوہر نے کہا، تو ہیٹر پر پکا لیتیں۔ بیگم نے جواب دیا، بجلی ہی نہیں ہے۔ شوہر بولا، اچھا بیٹا گاڑی کی چابی لو اور ہوٹل سے کھانا لے آؤ۔ بیٹے نے کہا، پاپا گاڑی میں سی این جی نہیں ہے۔ شوہر نے حیرت سے بیٹے کو دیکھا پھر کہا، اچھا تو پھر میرے ساتھ موٹرسائیکل پر چلو۔ بیٹا پھر بولا، پاپا ڈبل سواری کی پابندی ہے۔ چلو فون پر آرڈر دے دو۔ بیٹے نے کہا، پاپا آج فون سروس بند ہے، بیٹے کا یہ جواب سن کر شوہر بولا۔ حد ہوگئی پاکستان میں سب کچھ ختم ہے تو پھر باقی کیا ہے۔ بیگم بڑی معصومیت سے بولیں، ہاں جی ہے کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ یہ واقعہ کراچی کے ایک پوش علاقے کا ہے اور بالکل سچا ہے اسے کہیں لطیفہ نہ سمجھ لیجئے گا۔ کچھ لوگ حکومت کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں، ارے آپ حکمرانوں کے ’’مامے‘‘ لگتے ہو جو اْن کے فیصلوں پر اپنا خون اور دل جلاتے رہتے ہو۔ ایک صاحب جو حکومت کے شدید ناقد ہیں ہم سے پوچھنے لگے، کیا سینیٹ کے کاموں کو ’’سینیٹری ورک‘‘ کہا جاسکتا ہے؟ حکومت کے ایک حامی نے ہمیں بتایا کہ اورنج ٹرین کا سب سے بڑا کمال یہ ہوگا کہ انجن لاہور میں اسٹارٹ ہوگا اور دھواں بنی گالہ سے نکلے گا۔ آپ نے شاید کبھی مشاہدہ کیا ہو کہ ہماری قوم اب انجوائے منٹ بھول گئی ہے، کسی بھی انجوائے منٹ کے موقع پر اسے اپنی پریشانیاں یاد آجاتی ہیں، جیسا کہ دنیا میں جب بھی بارش ہوتی ہے تو آواز آتی ہے واٹ آ رومانٹک ویدر۔ لیکن پاکستان میں بارش ہوتی ہے تو مختلف اقسام کی آوازیں آتی ہیں، اٹھو منڈیو منجے اندر کرلو۔ موٹر تے تسلا رکھ وے بے ہدایتا۔ تندور بچھ گیا سارا بے شرمو، بکری اندر کرلیؤ۔ اوئے ویکھ پرنالہ چلدا کہ نہیں۔ کسی کو اس بات کا ڈپریشن ہوتا ہے کہ وہ کالا کیوں ہے۔ اب انہیں کالا ہونے کے فائدے تک نہیں معلوم، بھائی کالا ہونے کے بہت فائدے ہیں، سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ روز منہ نہیں دھونا پڑتا، نظر نہیں لگتی، رنگ گورا کرنے والے کریموں پر ایک بار کے بعد دوبارہ پیسے خرچ نہیں کرنے پڑتے۔ لڑکی سیٹ نہیں ہوتی تو اس پہ خرچے کی ٹینشن نہیں ہوتی۔ کوئی در فٹے منہ کہہ بھی دے تو زیادہ افسوس نہیں ہوتا۔ ہمیں حیرت تو ان لڑکیوں پر ہوتی ہے جو شادی سے پہلے اور شادی کے بعد روزانہ رنگ گورا کرنے والی کریمیں لگاتی رہتی ہیں لیکن اولاد پھر بھی ’’اصل رنگ‘‘ میں ہی جنم لیتی ہے۔ ہمارا ایک دوست تو اتنا کالا ہے کہ وہ جس صابن سے نہاتا ہے، پانچ منٹ وہ صابن بھی کندھے پہ تولیہ ڈال کے نہانے چلا جاتا ہے۔ ویسے سوچنے کی بات ہے قوم ڈپریشن کا شکار کیوں نہ ہو۔ جو بیچاری اپنے آئینی حقوق نہ لے سکے کیونکہ رشوت دینے کی سکت نہیں رکھتی۔ کسی ناظم کی مدد نہیں مانگ سکتی کیونکہ وہ اس کے ووٹ سے بنا ہی نہیں۔ لازمی اشیائے ضرورت کے روزبروز بڑھتے ہوئے نرخوں پر احتجاج نہیں کرسکتے کیونکہ حکومت الیکشن میں مصروف ہے۔ سیاستدان مشرف فوبیا میں مبتلا ہیں وہ سپریم کورٹ کی نہیں مانتے تو عام غریبوں کی کیا سنیں گے۔ اگر کسی غریب کا بچہ قتل ہوجائے تو وہ قاتلوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ اس کے پاس پولیس اور عدالت کا خرچ نہیں۔ وہ بیچارہ بس میں کھڑے ہو کر سفر کرتا ہے کیونکہ سیٹ چھین لینے کی اس میں طاقت نہیں۔ یہ سب تو عام عوام کے ساتھ ہورہا ہے، لیڈروں کا کیا بگڑا؟ سبھی آزادی سے اندرون و بیرون ملک مزے کررہے ہیں اور غریب بیچارہ آزاد ہوتے ہوئے بھی ایک قیدی کی زندگی گزار رہا ہے، جوتا پڑنے سے فرق نہیں پڑتا، سیاہی سے منہ کالا ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کرپٹ معاشرے کا منہ پہلے ہی کالا ہے اور اس عوام کو جوتے تو روز پڑتے ہیں۔ حالات ایسے نہیں بدلتے نہ حالات ایسے بدلے ہیں۔ جب تک ہم لوٹ کھسوٹ کی بجائے پوری دیانتداری سے اس قوم اور اس ملک کیلئے کام نہیں کرینگے اس وقت تک ہم یونہی در در کے گداگر رہیں گے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل