Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پشتون تحفظ تحریک۔۔ایک ابھرتی ہوئی سیاسی قوت

جنرل مرزا اسلم بیگ
پشتون تحفظ تحریک کا ابھرنا ایک خوش آئند امر ہے۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 62 سالہ منظور پشتین کی سربراہی میں ابھرنے والی اس تحریک نے پشتونوں کی سیاسی شناخت کو غیرمعمولی طور پر تبدیل کردیا ہے جسے اس کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جانا چاہئے کیونکہ اس کے اثرات پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے تمام پشتونوں پر یکساں مرتب ہوں گے۔ یہ ایک سیاسی تحریک ہے جس کا مقصد پشتون قوم کو ملک کے بڑے سیاسی دھارے میں باوقار مقام دلانا ہے۔ نامور شخصیات، سیاسی قائدین خصوصاً افغانستان کے صدر نے پشتون تحفظ تحریک پر اپنے اپنے تبصرے کئے ہیں جس سے اس تحریک کے خدوخال کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک تاریخی لمحہ ہے اور انتہاپسندی کے خلاف ایک مثبت قدم ہے جو اخلاقی طور پر ہم سب کو پابند کرتا ہے کہ اس کی تائید کریں کیونکہ یہ خدائی خدمتگار باچا خان مرحوم کی امن پرستی کے فلسفے کی تعلیمات سے جڑا ہوا ہے اور تمام افغانوں کے لئے لازم ہے کہ اس مقدس جدوجہد کی حمایت کریں۔ پشتین کی اخلاقی مدد کا مطلب پاکستانی معاملات میں مداخلت ہرگز نہیں ہے کیونکہ ڈیورنڈ لائن کی دوسری جانب رہنے والے پشتون ’’ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں۔‘‘
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کہتے ہیں: ’’پشتون تحفظ تحریک ہائی برڈ جنگ کا ایک حصہ ہے جس کی منصوبہ بندی ہمارے دشمنوں نے کی ہے۔‘‘ ان کا بیان، افغان صدر اشرف غنی کے بیان اور پشتون تحفظ تحریک کے اس نعرے کا فطرتی ردعمل ہے: ’’دہشت گردی کی پشت پناہی وردی والے، خصوصاً انٹیلی جنس ادارے کررہے ہیں۔‘‘ قومی ادارے کے خلاف ایسی زبان انتہائی غیرمناسب اور بنیادی مسئلے کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
پشتون سیاسی جماعتوں کا ردعمل
* عوامی نیشنل پارٹی نے محتاط انداز میں پشتون تحفظ تحریک کے اقدام کی حمایت کی ہے۔
* پختون خواہ ملی عوامی پارٹی نے تحریک کی مکمل حمایت کی ہے حالانکہ پشتون تحفظ تحریک کے محرکین فاٹا کو خیبرپختونخوا میں شامل کئے جانے کے حمایتی ہیں جبکہ پختون خواہ ملی عوامی پارٹی اس کی مخالف ہے۔
* جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جمعیت علمائے اسلام (س) دونوں جماعتوں نے ابھی تک اس تحریک کی حمایت نہیں کی۔ تحریک کے قائدین کے خلاف درج مقدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے غالباً یہ جماعتیں حکومت اور عسکری ہائی کمان کے ردعمل کی پیروی کریں گی۔
* دیگر سیاسی جماعتیں، مثلاً پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی نے فی الوقت اس تحریک سے لاتعلقی اختیار کررکھی ہے۔ ہمارے میڈیا کے تجزیہ کاروں نے اس تحریک کو خوش آئند قرار دیا ہے:
* ’’حالیہ ہفتے کے دوران پشتون تحفظ تحریک نے نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ 8 اپریل کو پشاور میں منعقد ہونے والی ریلی میں عوام کی بھرپور شرکت نے اس امر کو تقویت بخشی ہے کہ تحریک کے مقاصد فاٹا اور صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام کے مسائل کی صحیح ترجمانی ہے۔‘‘
* ’’متعدد مواقع پر پشتین اور اس کے پیروکاروں نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ان کی تحریک پاکستانی آئین کے عین مطابق ہے۔ اس تحریک کے مطالبات میں قومی دھارے میں شمولیت، گمشدہ لوگوں کی بازیابی، ماورائے آئین قتل و غارت کا خاتمہ، فاٹا کے معاملات میں حکومتی بے حسی اور بنیادی آئینی مراعات کا حصول شامل ہیں۔‘‘
* ’’ہمیں پشتون تحفظ تحریک کو تنگ نظری سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ تحریک کے نوجوان قائدین اور ریلیوں میں شامل ہونے والے عوام نے گزشتہ چار دہائیوں میں دیگر تمام معاشروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دہشت گردوں اور ناکام حکومتی پالیسیووں کے ہاتھوں ستم اٹھائے ہیں۔ پاکستان تحفظ تحریک سول سوسائٹی کے متحرک ہونے کی اعلیٰ مثال ہے جو نچلی سطح سے ابھری ہے اور اس کے مطالبات پاکستانی آئین کے عین مطابق ہیں۔ اگر ان مطالبات کو تسلیم کرلیا گیا تو اس سے وفاق مضبوط ہوگا اور پشتون تحفظ تحریک کی وساطت سے ہم وہ کچھ حاصل کرسکیں گے جس کے حصول کے لئے ہماری سیاسی قوتیں عرصہ دراز سے کوشاں ہیں لیکن ابھی تک حاصل نہیں کر پائے۔‘‘
* ’’عوامی نیشنل پارٹی اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے برخلاف منظور پشتین کی سربراہی میں پشتون تحفظ تحریک نچلی سطح کے عوام کی تحریک ہے جس پر کسی قسم کا سیاسی بوجھ نہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں حاصل بنیادی شہری حقوق پر سودے بازی کرے۔
فاٹا کا مسئلہ پشتون تحفظ تحریک کا مرکزی نقطہ ہے لہٰذا سوات اور دیر کے مسئلے کو پیش نظر رکھتے ہوئے فاٹا کے انضمام کا معاملہ فوری طور پر حل کرنا لازم ہے۔ کیونکہ 1969ء میں سوات اور دیر کو پاکستانی قوانین کے تابع لایا گیا تھا لیکن عدل و انصاف کی فراہمی میں غیرمعمولی تاخیر اور معاشرتی بگاڑ پھیلنے کی وجہ سے دس سالوں کے اندر اندر عوام نے اس حکم کو معطل کرنے کا مطالبہ کردیا۔ عوامی احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جنہیں ’’بغاوت‘‘ کا نام دے کر ریاستی طاقت کے بل بوتے پر کچلنا چاہا مگر اس دوران مولانا صوفی محمد، فضل اللہ، خالد خراسانی اور دیگر لوگ منظر عام پر آئے جس کی وجہ سے احتجاج کی لہر پڑوسی قبائلی علاقوں تک پھیل گئی اور مجبوراً فوج کو وزیرستان میں داخل ہونا پڑا، جس سے ہماری روزمرہ کی زندگی میں نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کا سلسلہ ہے۔ پشتون تحفظ تحریک کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ’’پشتون تحفظ تحریک کا معاشرتی تحریک کے طور پر ابھرنا پاکستان کے لئے غیرمعمولی ہونے کی دلیل ہے جہاں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی آواز، شہریت اور میڈیا اپنے حقوق کے حصول کی کوشش کرنے میں آزاد ہیں۔ ریاست کے لئے بھی ایک موقع ہے کہ وہ ایسا تاثر دے جس سے عیاں ہو کہ وہ معاشرے کے محروم، ناراض اور ناانصافی کا شکار طبقات کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ’’درحقیقت اس طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان تذویراتی روابط مضبوط ہوں گے جو افغان طالبان کی تحریک سے پیدا ہوئے ہیں۔ افغان طالبان ایک ناقابل شکست قوت ہے جو کراچی میں رہنے والے پچاس لاکھ سے زائد پشتونوں سے لے کر کوہ ہندوکش تک اور اس سے آگے آمو دریا تک پھیلی ہوئی ہے۔ درحقیقت یہ منظرنامہ ملا عمر کے نظریہ تصادم کی عملی تصویر ہے جس کا اظہار انہوں نے 2003ء میں ہمارے نام ایک پیغام میں کیا تھا: ’’پاکستان نے ہمارے خلاف جنگ میں ہمارے دشمنوں کا ساتھ دیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم پاکستان کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے کیونکہ ہماری منزل اور قومی سیکورٹی کے مفادات مشترک ہیں۔‘‘
پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے پشتون اپنے اپنے ملک کے مکمل طور پر وفادار ہیں لیکن جدوجہد آزادی میں یکجان ہیں اور کوئی طاقت انہیں پشتون نفسیات کے برعکس ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے پشتونوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے انہیں سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اب قائداعظم کی منطق کی جانب لوٹ آنے کا وقت ہے۔

مطلقہ خبریں