Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بوجھ

افسانہ
مسرت واحد خان
میں نے ایک بہت ہی غریب گھرانے میں آنکھ کھولی، میرا باپ کسی محکمے میں ایک معمولی چپڑاسی تھا، میری پیدائش پر کوئی خوش نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے علاوہ اس گھر میں دو بیٹیاں پہلے ہی موجود تھیں، میری پیدائش پر میرا باپ اتنا غصے ہوا کہ اس نے میری ماں کو خوب مارا کہ بیٹی کی پیدائش کے جرم میں۔۔۔ تو میری ماں نے اپنی مار کا بدلہ مجھ پہ اس طرح اتارا کہ میری طرف سے بالکل لاپروا ہوگئی، بہنیں مجھے دودھ وغیرہ دے دیتی اور اس طرح میں پل گئی، میری پیدائش کے پانچ برس بعد میری ماں پھر اْمید سے ہوئی تو اس نے جائے نماز سنبھال لی، ہر وقت بیٹے کے لئے دعا مانگتے ہوئے اتنا روتی کہ آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی اور خدا بھی اب کی بار اماں پہ مہربان ہوا اور ہمارا بھائی پیدا ہوا، جس دن ’’منا‘‘ اس دنیا میں آیا تو میرے ماں باپ اتنے خوش ہوئے کہ اپنی بساط سے بڑھ کر محلے میں مٹھائی تقسیم کی اور پڑوس والوں نے انہیں مبارکیں دیں، جیسے ہماری لاٹری نکل آئی ہو اور اماں کی آنکھوں میں فخر اور خوشی کی لہریں جگمگائے جیسے کوئی میدان مار لیا ہو۔۔۔ جس دن بھائی پیدا ہوا تو اس دن سے میری بڑی دو بہنوں کا اسکول جانا بند کرا دیا گیا تاکہ اماں کو کام کاج نہ کرنا پڑے اور وہ منے کی پرورش اچھے طریقے سے کرسکے۔ مجھے اسکول جانے دیا گیا کیونکہ میں چھوٹی تھی کوئی کام نہیں کرسکتی تھی۔ منے کے ساتھ اماں ابا کا بے تحاشا لاڈ پیار دیکھ کر مجھے منے پہ رشک آتا کہ کاش اس کی جگہ میں ہوتی، ہمارے حصے کی چیزیں بھی اسے دی جاتی اور ہمیں روکھی سوکھی کھانے کو ملتی، اماں ابا اتنے مگن ہوئے کہ ہماری طرف تو انہوں نے دیکھنا بھی چھوڑ دیا، اماں منے کو گود میں لے کر جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتی کہ منے کو خوب پڑھاؤں گی، یہ بہت بڑا افسر بنے گا اس کے پاس بہت بڑی کوٹھی اور کار ہوگی، میں بیٹھوں گی، میں معصومیت سے کہتی تو اماں ایک تھپڑ میرے منہ پہ جڑ دیتی اٹھ جا کہ بہنوں کے ساتھ کام کر کم بخت کلموئی تم کیا سمجھتی ہو کہ میرا منا تمہارا بوجھ اٹھائے گا۔ میں تمہیں پہلے ہی چلتا کروں گی، میں سوچتی رہ جاتی کہ ہم بوجھ ہیں؟ اماں مجھے کہاں چلتا کرے گی؟ لیکن جب یہ پتہ چلا کہ میری بڑی بہن کی شادی ہوئی ابا نے اپنی عمر کے آدمی کے ساتھ اسے گھر سے چلتا کیا تو میں ڈر کے مارے اماں کی اور زیادہ خدمت کرنے لگی، مجھے کسی کے ساتھ ایسے نہ بھیج دے، اماں کا گھر میں اتنا رعب دبدبہ تھا کہ ہم گھر میں ایسے ڈرے سہمے رہتے جیسے یہ گھر نہ ہو کوئی جیل ہو، کبھی کبھی تو میں خدا سے دعا کرتی کہ اللہ میاں نے ہمیں کیوں پیدا کیا، ماں کو تو بس ایک منا چاہئے تھا، ہمیں اس دنیا میں بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ گھٹے ہوئے ماحول کی وجہ سے میں بہت حساس ہوگئی تھی، ہر وقت اپنے آپ میں گم سم رہتی، پڑھائی میں دل لگایا ہوا تھا، اس طرح دن گزرتے گئے اور یوں برسوں بیت گئے، میں نے جب آٹھویں کا امتحان پاس کیا تو میری دوسری بہن بہا چکی تھی، وہ ایک دوزخ سے نکل کر دوسرے دوزخ میں جا پڑی تھی بلکہ بڑی بہن بیوہ بھی ہوگئی تھی، لوگوں کے گھروں کا کام کاج کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی، میرا ارادہ میٹرک کرنے کا تھا لیکن ابا نے مجھے سختی سے پڑھائی جاری رکھنے سے روک دیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ منے کو پرائیویٹ انگلش اسکول میں ڈالا گیا تھا، اس مدرسے کی فیس زیادہ تھی جس کی وجہ سے میری پڑھائی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے اس لئے دونوں سر جوڑ کر میری شادی کے بارے میں مشورے کرنے لگے۔ میں نے بڑی بہنوں کا حشر دیکھ لیا تھا اس لئے مجھے شادی کے نام سے نفرت تھی، میں نے ابا کے سامنے پہلی بار زبان کھولی کہ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی، مجھے آگے پڑھنے دیں، میں ٹیوشن پڑھا کر اپنی اسکول کی فیس اور کتابوں کا خرچہ نکال لوں گی۔ ابا یہ سن کر بہت لال پیلے ہوگئے لیکن پتا نہیں اماں کو مجھ پر کیسے رحم آگیا، اس نے میری آگے پڑھائی کا فیصلہ دے دیا اور ابا خاموش ہوگئے، دو سال کسی نہ کسی طرح گھسیٹ کر میں نے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا اور اب منا بھی بڑھا ہوگیا تھا، کھاتے پیتے گھرانے کے لڑکوں کے ساتھ پڑھتا تھا، ان کے کھلونے دیکھ کر وہ بھی ضد کرتا کہ مجھے بھی ایسی چیزیں لادو اور اماں فاقہ کرکے اس کی فرمائش پوری کرتی۔ بہت زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے بہت ضدی ہوگیا تھا، اس کی فرمائشوں کی لسٹیں روزبروز طویل ہوتی جارہی تھیں، اگر کوئی اس کی فرمائش پوری نہ ہوتی تو وہ غصے سے گھر کی چیزیں پٹخنے لگتا، میں نے کالج میں داخلہ لینے کے لئے اماں سے اصرار کیا تو وہ ایک دم بھڑک اٹھی، تمہیں ہم نے نوکری نہیں کروانی تمہاری ضد کی وجہ سے میں نے تمہیں میٹرک کرنے کی اجازت دے دی ورنہ آٹھویں کے بعد تمہاری شادی کردیتی۔ اگر تمہاری شادی نہ ہوئی تو کل کلاں تم میرے منے کے لئے عذاب بن جاؤ گی، بے چارے معصوم کو خوامخواہ تمہارا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ وہ غصے اور تشویش بڑے لہجے میں بولی۔ اماں آپ کیوں بار بار بوجھ جیسے الفاظ سے نواز رہی ہیں کیا میں بوجھ ہوں، آٹھویں کے بعد میں نے خود ٹیوشن پڑھا پڑھا کر میٹرک کیا، آپ نے ایک دھیلہ بھی نہیں دیا، پھر پتہ نہیں آپ کون سے ناکردہ گناہوں کی سزا ہمیں دے رہی ہو، میں پھٹ پڑی برسوں کا لاوا جو میرے دل میں ابل رہا تھا نکل آیا۔ الفاظ کی صورت میں کمرے میں جاکر بستر پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، اس کے بعد جیسے مجھے سکون آگیا لیکن اماں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ابا رات کو آئے تو اماں نے بتایا کہ لڑکی کے لئے بر ڈوھنڈو، اب زبان درازی پہ اتر آئی ہے، ابا کی کوششوں سے ایک ان پڑھ لڑکے کا رشتہ آیا تو اس کے ساتھ میری منگنی کردی گئی۔ منگنی کے دو برس کے بعد میری شادی کردی گئی، جس دن میری شادی تھی اْس دن منے کا رزلٹ آؤٹ ہوا تھا، جس میں وہ بْری طرح فیل ہوگیا تھا، ماں اس غم سے زاروقطار رونے لگی کیونکہ اس کو اپنے خواب مٹی میں ملتے نظر آرہے تھے۔ میں خاموشی سے دلہن بنی فاروق کے گھر آگئی اور حالات سے سمجھوتہ کرلیا، فاروق کا دل بہت اچھا نکلا، مجھ سے بہت محبت کرتا تھا، فاروق کی محدود آمدنی کی وجہ سے میں نے ایک پرائیویٹ اسکول میں ملازمت کرلی، ایک سال بعد اللہ نے مجھے پھول جیسی بچی سے نوازا تو خوشی سے میری آنکھوں میں آنسو نکل پڑے۔ میں نے اس معصوم کو اپنی گود میں پیار سے بٹھایا تو میں بے اختیار ہو کر بولی، بیٹی میں نے ماں کی گود کے ہوتے ہوئے اس کی گرمی محسوس نہیں کی تھی لیکن میں ایسا نہیں کروں گی، تجھ پر اپنی ممتا اتنی نچھاور کروں گی کہ تو نہال ہوجائے گی، آہٹ ہونے پہ میں نے سامنے دیکھا تو اماں کھڑی رو رہی تھی۔ اماں تم۔۔۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا، اس لئے کہ میری شادی کے بعد پہلی مرتبہ اماں نے میرے گھر قدم رکھا تھا اس لئے مجھے حیرت ہورہی تھی، بیٹی مجھے معاف کردو، آج مجھے احساس ہوگیا ہے کہ بیٹیوں کے پیار کی لمحے لمحے کی قرض دار ہوں، میں نے بیٹیوں کے حصے کا پیار بھی بیٹے پر نچھاور کردیا اور مجھے کچھ بھی نہیں ملا۔ اتنے زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے اسے میں نے بگاڑ دیا جو بڑھاپے میں میرا آسرا بنتا وہی خود ہی بے سہارا نکلا، اس نے ہیروئن کے نشے میں اپنے آپ کو گم کردیا، دیکھو آج اس نے مجھ پہ ہاتھ اٹھایا، صرف اس وجہ سے کہ اسے نشے کے لئے رقم درکار تھی اور میں نے نہیں دی، اماں نے اپنا بازو ننگا کرکے دکھایا جہاں بہت بڑا نیل کا نشان تھا، بیٹی آج تم مجھے بہت یاد آئی، تمہاری باتیں، تمہاری خدمتیں، تمہیں جس کے پلے باندھ دیا، تم نے اْف نہیں کی، آج یہ سب کچھ یاد آیا تو میں بے قرار ہوگئی، اپنے آپ کو گناہ گار سمجھنے لگی۔ کاش بیٹیوں کو بھی ان کے حصے کا پیار دیتی انہیں بوجھ نہ سمجھتی اور ناانصافی نہ کرتی، شاید خدا نے مجھے سزا دی ہے۔ اب بیٹی مجھے معاف کردو، اماں روتے ہوئے بولی، میں نے اماں کو ہمیشہ رعب اور دبدبے سے بات کرتے دیکھا تھا اور اب اس لاچاری، بے بسی سے نہ دیکھا گیا، میں اٹھ کر اماں کے سینے سے لگ کے رونے لگی، اماں یہی بہت ہے تمہیں احساس ہوگیا کہ ہم بوجھ نہیں ہیں، کاش ہر اس ماں کو اس کا احساس ہوجائے جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتی ہیں، میں دھیرے دھیرے کہنے لگی۔۔۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل