ناصر منصور
آج یکم مئی ہے۔ مزدوروں کا عالمی تہوار، آج بین الاقوامی مزدور تحریک ایسے عہد سے گزر رہی ہے، جہاں ایک طرف شکست وریخت ہے تو دوسری طرف نئے زمانے کے ظہور کے لئے جدوجہد کی صف بندیاں بھی ہو رہی ہیں لیکن فی الوقت سرمائے کی حیوانیت کا راج ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم اپنے سماج پر نظر ڈالیں تو ہم حیوانیت کے ایک بھیانک سیاسی اظہار یعنی آمریت کے خلاف فیصلہ کن جنگ جیتے ہیں، لیکن اس جمہوری فتح کے ثمرات عوام خصوصاً محنت کشوں کی دسترس میں آنے کی بجائے حکمرانوں کی امارت میں اضافے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ حکمرانوں نے آمریت سے چھٹکارے کے لئے جمہوریت کو زینے کے طور پر استعمال کیا، تاکہ وہ آمروں کے کمتر حصہ دار بننے کی بجائے بلاشرکت غیرے لوٹ مار کا بازار گرم کرسکیں۔ وہ کامیاب جا رہے ہیں۔ سماجی انصاف اور قانون پر مبنی محنت کش دوست جمہوریت کی جانب مراجعت کے لئے کوئی بڑی تحریک اور جستجو کرتی عوامی قوت موجود نہیں۔ سماجی تبدیلی اور بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کی خواہاں قوتیں نہ صرف کمزور ہیں بلکہ راہ ہی سے بھٹکی ہوئی ہیں۔ وہ اس قوت کی جانب دیکھ ہی نہیں رہیں اور نہ ہی متوجہ کر پا رہی ہیں جن کو وہ تبدیلی کا انجن قرار دیتی ہیں۔ سماجی تبدیلی کا انجن محنت کش یعنی مزدور، ہاری، کسان ملک کی کل آبادی کا 32 فیصد سے زائد ہیں اور بالغ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ 70 فیصد سے زائد یعنی ساڑھے چھ کروڑ کے قریب بنتا ہے۔ آج ہم اس طبقے کی گم گشتہ عظمت کے ترانے گانے کے بجائے نئے حالات میں اس کے گردوپیش کا جائزہ لیں گے اور اگر کہیں دبی چنگاری سلگ رہی ہو تو اسے بھی کریدنے کی موہوم سی کوشش کریں گے۔ پاکستان کی لیبر فورس کا 80 فیصد سے زائد غیرمنظم شعبے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ منظم ٹریڈ یونین میں اس کی شرح 2 فیصد سے زائد نہیں۔ اگر گورنمنٹ یعنی پبلک سیکٹر جس میں ریلوے، واپڈا، بلدیات، آئل گیس اور اسٹیل ملز جیسے اداروں کے مزدوروں کا شمار نہ کیا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر میں ٹریڈ یونین میں منظم مزدور ایک فیصد سے بھی کم رہ جاتے ہیں جوکہ جنوبی ایشیا میں سب سے کمتر سطح ہے۔ مزدور تحریک کو منظم کرنے کے قانونی ذرائع تیزی کے ساتھ اپنی اہمیت کھوتے جارہے ہیں۔ لیبر قوانین کی ارتقائی تاریخ بتاتی ہے کہ نوآبادیاتی نظام سے ورثے میں ملنے والے قوانین کئی لحاظ سے آج کے قوانین اور عمل درآمد کے طریقہ کار کے اعتبار سے بہتر تھے۔ تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے مزدور یونین سازی کے حق سے بہرہ مند تھے، یہاں تک کہ فوجی اداروں میں تمام سویلین اور پولیس تک کو یونین سازی کا حق حاصل تھا، لیکن بتدریج مزدوروں سے نہ صرف کئی ایک شعبوں میں یونین سازی کا حق چھین لیا گیا بلکہ اداروں میں یونین سازی کا طریقہ اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا کہ یونین سازی تقریباً ناممکن ہو کر رہ گئی۔ لیبر قوانین کی تشکیل نہایت جمہوری انداز میں طے کرنے کا سہ فریقی طریقہ کار رائج ہے۔ یعنی مالکان، مزدور رہنما اور حکومتی نمائندے باہمی مشاورت سے صنعتی تعلقات سے متعلق قوانین کو حتمی شکل دیتے ہیں۔ اس عمل میں مزدور ہمیشہ کمتر اور کمزور پوزیشن میں رہے ہیں۔ یوں مالکان جو کچھ خود تسلیم کرتے ہیں اس پر بھی عمل درآمد نہیں کرتے بلکہ اس کی خلاف ورزی کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ حکومتی ادارے اور حکومتیں بلااستثنیٰ صنعتکاروں کے خدمت گار بننے کو طرۂ امتیاز سمجھتی ہیں۔ اس لئے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرمائے نے براہ راست سیاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ نوازشریف ہوں یا آصف علی زرداری یا پھر جہانگیر ترین، یہ سیاستداں اور قانون سازی کرنے والے اداروں کے روح رواں ہی نہیں بلکہ ملک کے بڑے صنعتکار ہیں۔ ان کے درمیان تمام تر سیاسی اختلافات اور رسہ کشی کے باوجود ایک قدر مشترکہ ہے کہ یہ سب اپنی فیکٹریوں میں مزدوروں کو یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری کے بنیادی آئینی اور جمہوری حق دینے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں لیکن ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے عظیم ترین علمبردار بھی یہی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی صنعتوں میں مزدور حقوق کے لئے آواز اٹھانا، صنعتی تنازعات کے حل کے لئے لیبر کورٹس اور لیبر ڈپارٹمنٹ سے آس لگانا پتھر کا ہوجانے کے مترادف ہے۔ یوں سیاست کی آڑ میں سرمائے کے تسلط کا بھیانک کھیل جاری ہے۔ اس ملک میں حکومتوں نے کئی ایک بین الاقوامی لیبر کنونشنز کی توثیق کی ہے اور یہ اس پر عملدرآمد کا خوش کن نقشہ بھی پیش کرتے ہیں، لیکن حقیقت اس سے بھی کئی گنا بھیانک ہے، جس کا عمومی طور پر مزدوروں کے حالات کار سے متعلق تصور کیا جاتا ہے۔ غیرمنظم شعبوں یعنی زراعت، بھٹوں، گھر مزدوروں، تعمیراتی، کانکنی ودیگر سے متعلق کروڑوں مزدوروں کا کوئی پرسان نہیں ہے۔ منظم صنعتی شعبے کا مزدور جدید دور کا غلام ہے۔ قانون اور آئین کہتا ہے کہ وہ یونین بنا سکتا ہے لیکن حقیقت میں اسے اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی سے زائد کام غیرقانونی ہے لیکن حقیقت میں یہی قانون ہے، ہیلتھ اور سیفٹی، پنشن اور قانون سازی حق ہے، مگر محنت کش نہ صرف اس سے محروم ہیں بلکہ اس پر بات کرنا بھی ان کے لئے بے روزگاری کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اجتماعی سوداکاری باہمی معاہدے، یونین سازی، گریجویٹی، گروپ انشورنس، پانچ فیصد سالانہ بونس جیسے حقوق لیبر قوانین کی کتابوں میں افسانوں کی طرح موجود ہیں، لیکن کوئی اس حق کو زبان پر لائے تو دیوانہ قرار پائے۔ صنعتوں کے مالکان کے نزدیک حقوق کی بات معاشی ترقی کے لئے زہر قاتل ہے جبکہ حکومتیں ان کی اس بے وزن دلیل کو عملاً تسلیم کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود غیرقانونی ٹھیکے داری نظام مختلف شکلوں میں رائج ہے۔ کام کی جگہوں پر ماحول خطرناک حد تک غیرمحفوظ ہے۔ بلدیہ فیکٹری سانحہ، شپ بریکنگ گڈانی کے سانحے اس لئے نظروں میں آگئے کہ انہیں چھپانا ناممکن ہوگیا تھا، لیکن عام فیکٹریوں، کارخانوں سے لے کر شاہراہوں، پلوں کی تعمیر، کانکنی کے دوران ہونے والے مسلسل حادثات سانحہ کی فہرست میں نہیں آتے، اس لئے نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ فیکٹریاں، کارخانے اور کارگاہیں حقیقی معنوں میں موت کے پروانے جاری کرنے کے مراکز ہیں۔ نئے قوانین کی نوید سنائی جاتی ہے، لیکن مزدوروں کی زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ آئین میں ہونے والی 18ویں آئینی ترمیم نے بھی صنعتی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے بجائے مزید بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ پی پی کی سابق وفاقی حکومت جہاں اس تاریخی فیصلے کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے وہیں خود اس نے آئینی ترمیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقی سطح پر لیبر منسٹری کو نئے نام سے متعارف کرایا۔ آئی آراے2012 کے ذریعے ایک بار پھر مرکز کو صوبوں پر مسلط کردیا اور آج ای او بی آئیجیسے کئی ایک اداروں کو وفاق اور صوبوں کے درمیان فٹ بال بنا دیا گیا ہے۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو لیبر سے متعلق قوانین بنانے کا کلی اختیار مل گیا۔ لیکن تیاری نہ ہونے کی بنا پر صوبے بھی عمومی طور پر ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے۔ نتیجے کے طور پر مزدور مزید مشکلات میں گِھر گئے۔ آئی آراے2012 کے تحت نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن ملنے والے اختیارات کے تحت این آئی آر سی مزدوروں کے لئے تو مذبح بن گیا ہے، جہاں مزدوروں کے لئے یونین سازی کے دروازے بند ہیں، لیکن پاکٹ یونین رجسٹرڈ کرنے میں یہ ادارہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ این آئی آر سی میں چیئرمین کی نامزدگی حکومتی استحقاق ہے اور یہ ریٹائرڈ جج ہوتا ہے، جو تین سال کے لئے عہدے پر ہوتا ہے۔ یوں یہ ادارہ مزدوروں کو ریلیف پہنچانے کی بجائے مالکان کے تحفظ کا مضبوط مرکز بن گیا ہے۔ اگر کچھ مزدور کسی فیکٹری یا کارخانے میں صوبائی سطح پر تمام تر مشکلات کے باوجود یونین رجسٹرڈ کروا بھی لیتے ہیں تو فیکٹری انتظامیہ آئی آراے2012 کی آڑ میں بدنیتی سے دیگر کسی بھی صوبے میں اپنا آفس یا گودام ظاہر اور بین الصوبائی ادارہ ہونے کا دعویٰ کرکے اپنے قانونی مشیروں کے توسط سے ایک صوبے میں موجود فیکٹری کے کچھ ورکرز اور دوسرے صوبے میں موجود گودام یا آفس کے ایک دو گھوسٹ ملازمین کی ممبر سازی اور بین الصوبائی یونین کی رجسٹریشن کے لئے این آئی آر سیسے رجوع کرتی ہے۔ یوں وہ بیک وقت دو یونینز کی رجسٹریشن حاصل کرلیتی ہے۔ اس طرح نہ صرف صوبائی سطح پر رجسٹرڈ یونین غیرفعال ہوجاتی ہے بلکہ بین الصوبائی حقیقی مزدور یونین کی رجسٹریشن کا راستہ بھی مکمل طور پر روک دیا جاتا ہے۔ مزدوروں کے لئے اسلام آباد جاکر این آئی آر سی میں رجسٹریشن کے لئے کاغذات جمع کرانا اور مسلسل چکر لگانا معاشی طور پر تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس لئے ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ تمام بڑے پرائیویٹ صنعتی اداروں خصوصاََ ٹیکسٹائل، گارمنٹس میں کام کرنے والے لاکھوں مزدوروں کو علم ہی نہیں کہ ان کے اداروں میں یونینز موجود ہیں اور این آئی آر سی سے مالکان نے رجسٹریشن حاصل کی ہے، تاکہ بین الاقوامی کمپنیوں اور برانڈز کو کاغذی طور پر مطمئن کیا جاسکے اور ان کے لئے بھی کافی ہے کہ صارفین کو بتایا جا سکے کہ قانون کی پاسداری ہو رہی ہے۔ این آئی آر سی کا ادارہ مزدوروں اور مزدور تحریک کے لئے زہرقاتل اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ایسا خطرناک ہتھیار ہے جس سے رہی سہی مزدور مزاحمت کو کچلا جارہا ہے۔ این آئی آر سی مویشی منڈی کا منظر پیش کرتا ہے جہاں انصاف بکتا ہے، مزدوروں کا جانوروں کی مانند خرید وفروخت کا بازار لگتا ہے، ان کے خون اور پسینے کا سودا دن دہاڑے ہوتا ہے اور کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے۔ صوبائی ادارے اپنے آئینی حق سے دستبردار ہوچکے ہیں اور مزدور حقوق کو وفاق کے نام پر این آئی آر سی کی قربان گاہ میں صنعتی ترقی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ ایسے میں بین الاقوامی کنونشنز کی پاسداری اور آئی ایل او کا طریقۂ کار بھی صورتِ حال کو تبدیل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ جی ایس پی228 یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کی مصنوعات کے لئے منڈیوں کو کھولنے کے خصوصی مراعات کا معاہدہ ہے، جس کے ذریعے پاکستانی ریاست اور صنعتکاروں خصوصاً ٹیکسٹائل گارمنٹس کے شعبے کے سرمایہ داروں نے مراعات سے تو خوب استفادہ کیا، لیکن اس میں مزدور حقوق پر عملدرآمد کے وعدوں سے مسلسل انحراف روا رکھا۔ جی ایس پی228 سے حکومت نے نیک نامی کمائی، مالکان اور برانڈز نے خوب منافع کمایا، لیکن مزدوروں کے حصے میں شب وروز محنت اور بدحال زندگی ہی آئی۔ یہی کچھ کئی بین الاقوامی کمپنیوں اور برانڈز کے بین الاقوامی مزدور تنظیموں کے ساتھ ہونے والے گلوبل فریم ورک ایگریمنٹس (جی ایف اے) کے سلسلے میں بھی روا رکھا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے برانڈز صارفین کو بتا رہے ہیں کہ جن فیکٹریوں سے وہ مال حاصل کرتے ہیں وہاں ان معاہدوں کی روشنی میں مزدوروں کو تمام بنیادی حقوق مل رہے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جی ایف اے کو ہمارے جیسے ممالک میں مزدور حقوق سے متعلق برانڈز کی مجرمانہ غفلت پر پردہ ڈالنے کے لئے نہ صرف استعمال کیا ہے بلکہ اپنے صارفین کو مسلسل دھوکا دیا جارہا ہے۔ پاکستان اس کی بدترین مثال ہے۔ بدقسمتی سے بین الاقوامی مزدور تنظیمیں اور ان میں شامل شمالی حصے کی ٹریڈ یونینز اپنی طاقت کی بنیاد پر بین الاقوامی کمپنیوں اور برانڈز سے جب جی ایف اے کرتی ہیں تو جنوب کے ان کروڑوں مزدوروں اور ان کی تنظیموں سے بامعنی مشاورت کو درخور اعتنا نہیں سمجھتیں، جہاں ان معاہدوں پر عملدرآمد ہونا ہوتا ہے اور جہاں سے یہ کمپنیاں اور برانڈز اپنی مصنوعات مزدوروں کا بدترین استحصال کرکے تیار کراتی ہیں۔ اسی لئے یہ معاہدے تیزی سے بے اثر ہوتے جارہے ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں مزدور تحریک کو پیچیدہ اور گمبھیر چیلنجزسے مقابلے کے لئے نئی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت عرصہ دراز سے درپیش ہے۔ آج سرمائے کی تاریخی جبلت کی بنا پر آئی ایل او کا پیش کردہ تصور کہ مزدور سماج میں سوشل پارٹنر ہیں، یہ طبقاتی منافرت کی بجائے طبقاتی مفاہمت کا سوشل ڈیموکریٹک نظریہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے جبکہ منظم مزدور تحریک کی کمزوری کی وجہ سے مزدور طبقہ سوشل کاؤنٹر پارٹ (سماجی متبادل) بننے میں بھی اب تک ناکام رہا۔ مزدور طبقہ تمام تر پیداواری عمل میں اپنی اہمیت کے باوجود اپنے سماجی، معاشی اور سیاسی اظہار میں بڑی حد تک ناکام رہا ہے۔ محنت کش اپنی حقیقی شناخت سے فراریت کی راہ پر گامزن رہا۔ اس لئے سیاسی اظہار کے لئے اپنے دشمن طبقات سے آس لگاتا آیا ہے، نسلی اور قومی تفاخر کی شمع کے گرد پروانے کی طرح جل مرنے پر تیار رہتا ہے اور یہ من حیث الطبقہ خودشکستگی کے حصار سے باہر نکلنے پر عمومی طور پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ اگر ایسا سب کچھ ہے تو یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے۔
سچ یہی ہے کہ محنت کش طبقے کے لئے کوئی چارہ گر نہیں بن سکا۔ لیکن جب بھی محنت کشوں نے خود سے اپنی قیادت سنبھالی چھوٹی ہی سہی لیکن کامیابی حاصل کی، سانحہ بلدیہ کی جدوجہد ہو یا گڈانی شپ بریکنگ کی صنعت سے وابستہ مزدور ہوں یا دیگر اداروں میں جدوجہد ہو وہ اپنی جنگ خود لڑ کر فتحیاب ہوئے ہیں۔ یہی مزاحمت نئے حوصلوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے۔ بہت ہی چھوٹے پیمانے پر سہی لیکن نئی صف بندی آہستگی اور غیرمحسوس انداز میں جنم لے رہی ہے۔ فیکٹریوں میں تنظیم سازی شجر ممنوعہ ہے تو بستیوں میں جتھا بندی روکنا ممکن نہیں۔ ملک کی لیبر فورس میں نوجوانوں کا حصہ 60 فیصد جبکہ صنعتی مزدوروں میں نوجوانوں کی شرح 72 فیصد سے زائد ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے لئے پُرجوش بھی ہیں اور حق کے لئے انفرادی کی بجائے اجتماعی طور پر لڑنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ اس لئے مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن یہی نوجوان محنت کش ہیں جن میں ایک بڑی تعداد عورتوں کی ہے اور وہ منظم ہونے کے لئے شعوری طور پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے کہ طاقت کے توازن کو سرمائے کے مقابلے میں محنت کشوں کے حق میں بدلنے کی طرح ڈالی جائے۔ یکم مئی کا دن اس ’’ طرح‘‘ ڈالنے کے عزم کا دن ہے۔ آج یکم مئی کے عظیم موقع پر اس عہد کو دہرانا ہوگا کہ مزدور کو اپنی سب سے طاقت ور شناخت یعنی ’’مزدور‘‘ کی حیثیت سے منظم ہونا ہے اور خود کو مذہب، فرقہ نسل پرستی، لسانیت کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرنا، کیونکہ سرمائے کے ہاتھ میں مزدوروں کے خلاف یہ سب سے خطرناک اور مہلک ہتھیار ہیں۔