ڈاکٹر ساجد خاکوانی
کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے غیرانسانی رویوں سے تنگ آکر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق کشمیریوں نے ایک عرصے سے بھارتی فوج پر حملوں کا راستہ اپنا رکھا ہے۔ فروری 2018ء کے وسط میں اسی نوعیت کا ایک حملہ جنوبی کشمیر کے ضلع ’’پلوامہ‘‘ کے علاقہ ’’کاک پورہ‘‘ میں واقع قابض بھارتی فوج کے کیمپ پر کیا گیا۔ بھارتی اخبارات کے مطابق حملہ کرنے کا مقصد وہاں موجود ایسے کشمیریوں کو آزاد کروانا تھا جنہیں بھارتی فوج نے گرفتار کر رکھا تھا۔ ہندوستانی اخبارات نے ان مجاہدین تحریک آزادی کو دہشت گرد لکھا ہے جو بھارتی فوج کے زیرحراست تھے۔ یہ فوجی کیمپ بدنام زمانہ ’’راشٹریہ رائفل (راشٹریہ رائفلز )‘‘ کا تھا جس نے ایک طویل عرصے سے کشمیریوں پر ظلم وستم کی انتہا کے ذریعے ان کی زندگی عذاب کررکھی ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اس حملے میں چار بھارتی فوجی واصل جہنم ہوئے جن میں سے ایک کیپٹن کے عہدے کا افسر بھی شامل تھا، ممکن ہے اصل نقصان اس سے کہیں زیادہ ہو اور خفت و ناکامی کی پردہ پوشی کے لئے بہت کم نقصان بتایا گیا ہے۔ ابتدائی رات کو ساڑھے آٹھ بجے یہ حملہ ایک گرینیڈ کے ذریعے کیا گیا جس کے جواب میں بھارتی فوج کافی دیر تک جوابی گولیاں چلاتی رہی لیکن کشمیری مجاہدین آزادی کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے اور بھارتی فوج کے مطابق کشمیریوں کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جبکہ بھارتی فوج کے ایک افسر لیفٹیننٹ کرنل دیوندر آنند نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مرنے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد سات بتائی ہے۔ بھارتی فوج کے اس نمائندے نے یہ بھی بتایا ہے کہ حملے کے نتیجے میں گرفتار ہونے والے مجاہدین آزادی کو حملہ آور چھڑا کر لے گئے ہیں۔ ایک پولیس افسر نے حملے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ دو موٹرسائکلوں پر حملہ آور آئے اور کارروائی کر کے چلے گئے۔ اﷲ تعالیٰ اس طرح بھی اپنے خاص بندوں کی حفاظت کرتا ہے کہ بے شک وہ قادر مطلق ہے جو آگ سے بھی اپنے پیاروں کو بچا نکلنے کی طاقت رکھتا ہے۔
’’راشٹریہ رائفل (راشٹریہ رائفلز )‘‘ بھارتی فوج کا ایسا خاص ظالم جتھا ہے جو دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کیا گیا ہے اور بھارتی وزارت دفاع کے تحت کام کرتا ہے۔ آج کل اس جتھے کو جموں و کشمیر کے علاقوں میں مجاہدین آزادی کشمیر کی سرکوبی پر تعینات کیا گیا ہے۔ 1990ء کے بعد سے کشمیر میں تحریک آزادی نے زور پکڑا تو بھارتی حکومت نے فوج کو وادی میں اتار دیا تاکہ حالات پر قابو پایا جاسکے۔ اس سے پہلے بھارتی فوج نے اسی نوعیت کی عوامی بغاوتوں کے خلاف مشرقی پنجاب، ناگالینڈ اور سری لنکا میں بھی کارروائیاں کی تھیں۔ ان کارروائیوں میں جتنی کامیابیاں ہوئیں اس سے زیادہ بدنامیاں سمیٹنا پڑیں اور بھارتی حکومت کو اپنی بدمعاش فوج کے ہاتھوں شہریوں کی قتل و غارت گری اور مذہبی مقدس مقامات کی بے حرمتی پر بے پناہ سچی جھوٹی وضاحتیں دینا پڑیں تھیں۔ ان علاقوں میں بغاوتوں کو شاید اتنے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل نہیں تھی جس کے باعث بھارتی فوج کی طاقت نے وقتی طور پر جذبہ ہائے آزادی کو دبا دیا۔ ان کے مقابلے میں کشمیر کی عوام نے بحیثیت قوم بھارت کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے علی الاعلان علیحدگی کی تحریک چلا رکھی ہے۔ چنانچہ ان خاص حالات کے پیش نظر بھارتی فوج کا دستہ ’’راشٹریہ رائفل (راشٹریہ رائفلز )‘‘ ترتیب دیا گیا تاکہ فوج کے ذریعے عوامی بغاوت کو دبانے کا کام طاقت اور قوت کے بل بوتے پر لیا جاسکے۔ قابض بھارتی فوج کے اس بدمعاش جتھے کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ ساری کامیابیاں کاغذوں تک ہی محدود ہیں، عملی کارروائیوں میں سوائے بدنامی کے کچھ میسر نہیں ہے۔ اس کا تازہ ثبوت یہی ہے کہ چند شہریوں کے حملے میں باقاعدہ تربیت یافتہ فوج کے افسر اور جوان مارے گئے جبکہ حملہ آور بڑی کامیابی وصفائی سے نکل بھاگے۔
بھارتی اخبارات کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری ’’جیش محمدؐ‘‘ نے قبول کرلی ہے۔ بھارتی اخبارات نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ جیش محمدؐ کے نمائدہ ’’حسن شاہ‘‘ نے اپنے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجاہدین نے راکٹوں سے حملہ کیا تھا جس سے بھارتی فوج کا بے پناہ نقصان ہوا۔ بھارتی خبر رساں اداروں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ایک دن قبل جیش محمدؐ کے پانچ افراد کو فوج نے گرفتار کیا تھا جنہوں نے دوران تفتیش اپنے اس تعلق کا اقرار بھی کرلیا تھا اور اس سے قبل کے بھارتی فوج پر حملوں میں ملوث ہونے کی تصدیق بھی کردی تھی۔ بھارتی اخبارات نے اپنے ان دعوؤں کی تصدیق کے لئے من گھڑت کہانی بھی تراشی جس کے مطابق ’’سجاد احمد بھٹ‘‘ نامی ایک پاکستانی گرفتار ہوا ہے جو ایک تربیت یافتہ مجاہد ہے اور جیش محمدؐ کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ کشمیری پولیس کے ہاتھوں گرفتار اس پاکستانی کو کسی بھارتی اخبار یا برقیاتی خبر رساں ادارے نے بالکل بھی نہیں دکھایا۔ لگتا ہے کہ گزشتہ کہانیوں کو سچ ثابت کرنے کے لئے ایک اور جھوٹ تراشا گیا ہے۔ بھارتی اخبارات، ظاہر ہے، اپنی حکومت کی زبان بولتے ہیں اور اپنی خبروں میں حکومتی موقف ہی بیان کرکے سیکولرازم کی آزادی صحافت کی حقیقت طشت ازبام کردیتے ہیں۔
راشٹریہ رائفل کے فوجی ٹھکانے پر حملہ کرنا اپنی کمیت میں اتنا بڑا واقعہ تھا کہ بھارتی وزیردفاع نرمالاستھرمان کو فوری طور پر مقبوضہ وادی کا دورہ کرنا پڑا۔ اس موقع پر اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیردفاع نے کہا کہ ’’پاکستان کو اس مہم جوئی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘‘۔ بھارتی وزیردفاع نے اخباری نمائندوں کے سامنے اس جملے کو بار بار دھرایا، یہاں تک کہ ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ کی حکومت اس واقعے کے حقائق کا پاکستان کے ساتھ اشتراک کرے گی، تو موصوفہ وزیرصاحبہ نے ہاں میں جواب دیا۔ جبکہ ان کے دورے کے بعد بھی بھارتی فوج کی مجاہدین تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ جھڑپیں جاری ہیں۔ اس دورے سے قبل اور اس کے بعد سے آج تک اس طرح کے کئی واقعات ہوچکے ہیں جن میں قابض بھارتی فوج، مقبوضہ کشمیر کی پولیس اور دیگر خفیہ، دفاعی و نیم دفاعی اداروں کے اہلکار پہلے عوام پر ظلم ڈھاتے ہیں، عوامی مظاہرین پر عام طور پر اور خواتین پر خاص طور پر ربر کی گولیاں چلا کر انہیں جسمانی طور پر معذور کرتے ہیں، کشمیریوں کے نوجوان سپوتوں کو دن دیہاڑے گھروں سے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور کشمیریوں کی قیادت کو نظربند کردیتے ہیں اور پھر جواب میں ان اداروں کے اہلکار عوامی غیض و غضب کا شکار ہوتے ہیں۔ عوام جہاں کہیں انہیں اکیلا دیکھتی ہے اپنا غصہ اتارنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے جواب میں بھارتی قیادت اپنے کرتوتوں کا اور اپنی فوج کے مظالم کے جواب کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے کر اپنی جان چھڑا لیتی ہے۔ اگر ایک فوج اپنے کیمپ میں بھی اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہے تو کیا پڑوسی ملک اس نالائقی کا ذمہ دارہے؟ اگر ایک عسکری ادارہ گرفتار شدگان کو بھی اپنی حراست میں رکھنے کے قابل نہیں ہے اور چند عام شہری نوجوان اس ادارے کے تربیت یافتہ فوجیوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر اپنے بے گناہ دوستوں کو چھڑالے جاتے ہیں تو بھلا اس میں کسی دوسرے ملک کا کیا قصور ہوسکتا ہے۔
بھارتی قیادت کا یہ رویہ ناقابل فہم ہے اور یقیناً ان کے اپنے ملک میں بھی اس پر گرفت کی جاتی ہوگی کہ آخر ہر کارروائی کا ملبہ پاکستان پر کیوں ڈال دیا جاتا ہے؟ بھارت کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ فوج فوج سے تو لڑ سکتی ہے لیکن کوئی بھی کتنی ہی طاقتور فوج کمزور سے کمزور قوم سے قطعاً بھی نہیں لڑ سکتی۔ جب کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو انہیں آزاد کر دینا چاہئے۔ لیکن واقعہ یہ ہے پورے ہندوستان میں برہمن راج کے خلاف مشرق سے مغرب تک بغاوتیں پھوٹ پڑی ہیں۔ ان بغاوتوں نے ایک عرصے تک جمہوری وعوامی رنگ اختیار کیے رکھا اور کوشش کی کہ سیدھی انگلی سے گھی نکل آئے لیکن اب یہ بغاوتیں مسلح کشاکش کا رنگ اختیار کرچکی ہے اور بھارتی فوج آج کل دفاع قوم کی بجائے دفاع حکومت کا فریضہ ادا کر کے پورے ملکی عوام سے نفرت سمیٹ رہی ہے، جس کا اظہار کشمیر سمیت پوری ملک میں آئے روز ہوتا رہتا ہے۔ بھارتی حکومت اگر کشمیریوں کو آزادی دیتی ہے تو پورا ہندوستان اٹھ کھڑا ہوگا اور کشمیریوں کی طرز پر علیحدگی چاہے گا، تب حالات یقیناً ناقابل گرفت ہوجائیں گے۔ لیکن آخر کب تک؟ ظلم کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو صبح نور نے بلآخر آنا ہی ہوتا ہے۔ کشمیر کی آزادی تو نوشتہ دیوار ہے ہی لیکن کشمیر کے الحاق پاکستان کا عمل ہندوستان میں برہمن راج کے تابوت پر آخری کیل ثابت ہوگا۔ تخت دہلی ماضی میں بھی مسلمانوں کا تھا اور ہندوستان سمیت کل دنیا کا مستقبل بھی وحی کی آفاقی تعلیمات سے منسلک ہے۔ سیکولرازم بہت جلد پوری دنیا سے مٹنے والا ہے اور اس کے بعد کوئی معاشی نظریہ اس دنیا میں اپنا وجود نہیں رکھتا سوائے اسلام کے معاشی نظام کے جو ہر طرح کے استحصال سے پاک نظام فراہم کرتا ہے۔ پس سلام ہے مجاہدین تحریک آزادی کشمیر کو جنہوں نے ایک سامراجی طاغوت کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں اور انہیں کشمیری شہدا کا مقدس خون کل دنیا سے کفر و شرک کے باطل نظام کے خاتمے کا سبب بنے گا۔ انشااﷲ تعالیٰ۔