Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بیادِ ’’سرور بارہ بنکوی‘‘

تیری یاد آگئی، غم خوشی میں ڈھل گئے
30 جنوری 1927ء۔۔۔ 3 اپریل 1980ء
شیخ لیاقت علی

12 اپریل 1968ء کو جب سابقہ مشرقی پاکستان میں بننے والی فلم ’’چاند اور چاندنی‘‘ کراچی کے سابقہ مرکزی سینما پلازہ میں ریلیز ہوئی تو شائقین فلم نے اس فلم کی مسحورکن اور دلآویز موسیقی کو بے حد پسند کیا جسے معروف موسیقار کریم شہاب الدین نے کمپوز کیا تھا۔ اس فلم کے تمام ہی نغمات زبانِ زدِ عام ہوئے جن میں بالخصوص
جانِ تمنا خط ہے تمہارا پیار بھرا افسانہ، دل لے لو نذرانہ (احمد رشدی)
یہ سماں سوج کا کارواں آج ہم سفر لے چلا ہے کہاں (مسعود رانا، مالا)
تجھے پیار کی قسم ہے میرا پیا بن کے آجا، میری بے قراریوں کا تو قرار بن کے آجا (مسعود رانا، مالا)
لائی گھٹا موتیوں کا خزانہ آیا بہاروں کا موسم بہانا (مالا و کورس)
اے جہاں اب ہے منزل کہاں، چھٹ گیا ہم سفر کھو گیا آسمان (احمد رشدی)
تیری یاد آگئی تم خوشی میں ڈھل گئے، اک چراغ کیا جلا سو چراغ جل گئے (مسعود رانا)
احتشام کی ڈائریکٹ کردہ ’’چاند اور چاندنی‘‘ کے ان سدا بہار نغمات کے شاعر سرور بارہ بنکوئی تھے۔ گو کہ وہ اس فلم سے قبل ڈھاکہ کی بننے والی اُردو فلموں چندا، تلاش، پریت نہ جانے ریت، ناچ گھر، بندھن، تنہا، ملن، آخری اسٹیشن، بہانہ، ساگر، سات رنگ، کاجل، کیسے کہوں، مالا، اُجالا، نواب سراج الدولہ اور تم میرے ہو کے نغمات لکھ چکے تھے لیکن چاند اور چاندنی کے نغمات سب سے بڑھ کے ثابت ہوئے۔ سرور نے ڈھاکہ کی فلموں میں کیریئر کا آغاز بطور کہانی نویس و مکالمہ نویس و نغمہ نگار فلم تنہا (1984) سے شروع کیا لیکن اُن کی ریلیز ہونے والی پہلی فلم ’’چندا‘‘ (1962) ہے جو ڈھاکہ میں مکمل طور پر بننے والی اولین اُردو فلم ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ چندا کو احتسام نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اُس کی موسیقی آنجہانی روبن گھوش کی تھی۔ معروف اداکارہ شبنم اور معروف اداکار رحمن کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔ یہ دونوں چندا سے قبل کچھ بنگلہ زبان کی فلموں میں کام کر چکے تھے۔ چندا میں گلوکاری فردوسی بیگم نے سرور کا لکھا یہ گیت خوب گایا۔
اکھیاں توری راہ نہاریں اوپر دیسیا آجا
سرور 30 جنوری 1927ء کو پیارے پور (ضلع بارہ بنکی، یوپی انڈیا) میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام سعید الرحمن تھا۔ اُن کے والد سید محمد ادریس زمیندار تھے۔ اُن کی والدہ آمنہ خاتون بے حد دیندار تھیں۔ انہوں نے اپنے بچوں سعید الرحمن، حفیظ الرحمن، معیز الرحمن اور نسیم عائشہ و پروین عائشہ کی ابتدائی مذہبی تعلیم مکتبہ مدرسے میں دلوائی اور اُن تمام بچوں کی اسکول و کالج کی تعلیم پر بھی اپنے شوہر سے زیادہ توجہ دی۔
30 نومبر 1948ء کو سرور کی شادی اُن کے ایک رشتہ دار نسیم احمد کی صاحبزادی عافہ سے ہوئی جن سے سرورؔ کے چار صاحبزادے عارف، خالد، آصف اور طارق اور تین صاحبزادیاں ایمن، سارہ اور ہما ہوئیں۔ عارفہ سال 1991ء میں وفات پا گئیں جبکہ سرور 3 اپریل 1980ء کو اس جہاں سے رُخصت ہوئے۔ سرور ایک زمانے میں انڈو پاک مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔ غالباً سال 1951ء میں ڈھاکہ کے کرزن ہال میں یوم اقبال کے سلسلے میں کل انڈو پاک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں مغربی پاکستان (حالیہ پاکستان) کے بڑے بڑے شعراء کرام کے علاوہ انڈیا سے بھی بعض نامور شعراء کرام نے شرکت کی۔ یہ ایک طرحی مشاعرہ تھا اور مصرعہ طرح اقبال ہی کا یہ مصرعہ تھا۔
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبطِ فغاں سمجھا تھا میں
اس مشاعرے کی صدارت مشرقی پاکستان کے گورنر فیروز خان نون کررہے تھے۔ انڈیا سے آئے ہوئے شعراء کرام میں جگر مراد آبادی اپنے ہمراہ ایک نوجوان خوبرو شاعر کو بھ لائے تھے جو سرور بارہ بنکوی تھے۔ اپنوں نے اپنی نغمگی اور ترنم میں ڈوبی آواز میں غزل کہنا شروع کی تو پورے کرزن ہال میں جیسے وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ سامعین و حاضرین نے انہیں کھل کر داد دی، مشاعرے کے کچھ دنوں بعد تمام مہمان شعراء واپس چلے گئے مگر سرورؔ ڈھاکہ ہی میں ٹھہر گئے اور انہوں نے دو تین ماہ ادبی شخصیات اور ادبی محافل میں گزار دیئے۔ جب بارہ بنکی کی اور گھر والوں کی یاد نے ستایا تو بارہ بنکی لوٹ آئے۔ مگر پھر سال 1953ء میں سرور صاحب مستقل ڈھاکہ بمعہ خاندان کے آگئے۔ یہاں انہوں نے انجمن ترقی اُردو میں ملازمت کی، اس ملازمت کے ساتھ ساتھ شعر و سخن کا سلسلہ بھی جاری رہا اور مغربی پاکستان میں ہونے والے مشاعروں میں بھی انہیں بلایا جانے لگا۔ کلکتہ میں ایک مشاعرہ ہوا تو سرورؔ نے اپنی مسحورکن آواز میں یہ غزل سنائی اور زبردست پذیرائی حاصل کی۔
جب تلک روشنی فکر و نظر باقی ہے
تیرگی لاکھ ہو، امکانِ سحر باقی ہے
ڈھاکہ میں قیام کے دوران سرور کے ایک دوست صلاح الدین محمد نے جو صحافی بھی تھے، اُن کو فلم کے لئے کہانی لکھنے کی دعوت دی جو اُردو زبان میں بننی تھی۔ اُس وقت ڈھاکہ میں صرف بنگلہ زبان کی فلمیں بن رہی تھیں لہٰذا سرور نے فلم کی کہانی لکھنے کی دعوت قبول کی اور بے بی اسلام کی فلم ’’تنہا‘‘ سرور کی پہلی فلم بنی۔ بے بی اسلام نے تنہا کو ڈائریکٹ بھی کیا اور اس فلم کی عکاسی بھی کی۔ سرور کے لئے 9 نغمات بھی تحریر کئے اور ان نغمات کی دھنیں موسیقار الطاف محمود نے بنائیں اور انہوں نے اپنی آواز میں یہ نغمہ بھی گایا تھا۔
پھول کھلے مُرجھانے کو، یہ بہار آجائے
’’تنہا‘‘ کی عکس بندی کے دوران ڈھاکہ ہی کے معروف فلمساز و ہدایت کار احتشام نے پہلی اُردو فلم ’’چندا‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا اور اس فلم کے لئے سرور کی بطور شاعر خدمات حاصل کیں۔ یہی فلم ریلیز کے ضمن میں سرور کی پہلی فلم مانی جاتی ہے جس کا ریلیز سال 1962ء ہے۔
سرورؔ نے اپنے فلمساز ادارے ساگوریکا پکچرز کے بینر تلے تین فلمیں پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیں جن کے نام آخری اسٹیشن، تم میرے ہو اور آشنا ہیں۔ یہ تینوں فلمیں باکس آفس پر زیادہ رنگ نہ جما سکیں اور ناکام رہیں۔ لہٰذا ان فلموں کے بعد سرور نے کوئی فلم نہیں بنائی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سرور اہل خانہ کے ہمراہ نقل مکانی کرکے مستقل کراچی آگئے۔ ڈھاکہ میں قیام کے دوران سرور نے اپنا ذاتی ادبی جریدہ آب و گل نکالا اور پاکستان رائٹرز گلڈ ڈھاکہ کے مجلہ ’’قلم کار‘‘ کی ادارت بھی کی۔ اُن کی شاعری کا پہلا مجموعہ کلام ’’سنگِ آفتاب‘‘ سال 1975ء میں کراچی میں شائع ہوا جبکہ اُن کا دوسرا شعری مجموعہ ’’سوزگیتی‘‘ کے نام سے اُن کے انتقال کے بعد ستمبر 1980ء میں کراچی ہی میں شائع ہوا۔ سرور بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے مگر انہوں نے بعض بہت ہی عمدہ نظمیں بھی رقم کیں اور ان کی نظموں میں بھی تغزل کا رچاؤ نظر آتا ہے۔ بالخصوص فن، دعا، بیاکل رُت، یوم اناالحق، دیوار، خواب دیکھتا ہوں، بلیک آؤٹ، شکست سے پہلے، سائیکلون، افسانہ، کرفیو، امن کی بشارت اور احتساب متاثر کن نظمیں ہیں۔
سرور نے کراچی میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران کراچی اور لاہور کی بعض فلموں کے لئے نغمات تحریر کئے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے کچھ پروگرامز میں شرکت کی اور سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستانی جنگی قیدیوں کے بارے میں ایک فلمی کہانی ’’کیمپ نمبر 99‘‘ کے نام سے لکھی۔ اس فلم کا منظرنامہ اور مکالمے بھی انہوں نے لکھے۔ اُس زمانے میں نیف ڈیک (NAFDC) نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن، اسلام آباد نے اس فلم کے اسکرپٹ کو خرید بھی لیا تھا مگر فوجی حکام نے اسے فلمانے کی اجازت نہیں دی۔ سرور بے حد مایوس ہوئے مگر کچھ عرصے بعد جب بنگلہ دیش میں حالات کچھ پُرسکون ہوئے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال ہوئے تو سرور کو بنگلہ دیش کے ساتھ مشترکہ فلم سازی کا خیال آیا۔ وہ اپنے خوابوں کی سرزمین کو بھولے نہیں تھے مگر اب وہ اُن کے لئے دیارغیر تھا۔ بہرطور وہ ڈھاکہ گئے اور اپنے پرانے فلمی دوستوں سے ملے، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین فلم سازی کا آئیڈیا سرور کا اچھوتا آئیڈیا تھا اور اس ضمن میں بنگلہ دیشی فلمساز فضل شہاب الدین سے معاملات بھی طے پا گئے۔ سرور نے فلم کی تیاریاں شروع کردیں اور ایسی کہانی پر کام شروع کیا کہ جس کے کردار دونوں ممالک پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے تھے۔ اس فلم کے لئے سرور کو کئی بار ڈھاکہ جانا پڑا اور بالآخر شوٹنگ سے پہلے کی تقریباً تیاریاں مکمل کرلیں گئیں۔ ایک دن وہ اپنے دیرینہ دوست سلامت علی خان کی دعوت پر ڈھاکہ سے نرائن گنج گئے۔ 2 اپریل 1980ء کی رات سرور، سلامت کے ساتھ کھانا کھا کے اور گپ شپ تکا کے اٹھے اور اپنے کمرے میں آتے ہی سو گئے۔ صبح جب سلامت نماز کے لئے اٹھے تو سرور کو شدید کرب کی حالت میں پایا۔ انہیں دل کا شدید دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور سرور 3 اپریل 1980ء کی صبح ہم سب سے جدا ہوگئے۔ اُن کا جسدخاکی ڈھاکہ سے کراچی لایا گیا اور 4 اپریل 1980ء کو وہ اسی شہر میں آسودہ خاک ہوئے۔ تحریر کے آخری حصے میں سرور بارہ بنکوی کے بعض سدا بہار فلمی نغمات کے بول پیش خدمت ہیں:
کچھ اپنی کہیئے کچھ میری سنیے، یہ عالم تنہائی ایسے میں چپ تو نہ رہیئے
(بشیر احمد، موسیقار روبن گھوش فلم تلاش)
جاجا بے دردی سانوریا، کاہے کھینچے ہے موری کلیا (پریت نہ جانے ریت، فردوسی بیگم، سبل داس)
لنگڑے گھوڑے سنبھل سنبھل، ایسی پیاری چال نہ چل
(ناچ گھر، انجمن آرا/ روبن گھوش، موسیقار دھیر علی منصور)
چاند ستارے یہ رنگین نظارے کرکے اشارے
(بندھن، فردوسی بیگم/ بشیر احمد، موسیقار روبن گھوش)
تم سلامت رہو مسکراؤ ہنسو میں تمہارے لئے گیت گاتا رہوں
(ملن، بشیر احمد، موسیقار خان عطا الرحمن)
ٹوٹا اک تارا چمکا اندھیارا کون ہے میرا
(آخری اسٹیشن، آئرن پروین، موسیقار خان عطا الرحمن)
میرے افسانے میں رنگ آ ہی گیا دل دھڑکنے کا
(بہانہ، آئرن پروین، موسیقار خان عطا الرحمن)
کوئی تن من میں سرلی بجانے لگا، ہمرے انگنا کوئی گانے لگا
(ساگر، فردوسی بیگم، موسیقار سبل داس)
راحتِ قلب و سکونِ جان سمجھ بیٹھے تھے ہم
(سات رنگ، فردوسی بیگم، موسیقار خان عطا الرحمن)
یہ آرزو جواں جواں یہ چاندنی دُھواں دُھواں (کاجل، فردوسی بیگم، موسیقار سبل داس)
اتنا بھی موہے نہ ترساؤ، ارے سیاں پڑوں پیا نہ جاؤ (مالا، نجمہ نیازی، خان عطا الرحمن)
دل کے ہاتھوں دیوانہ ہوں تم شمع ہو میں پروانہ ہوں
(اُجالا، انجمن آرا/ حفیظ، موسیقار دھیر علی منصور)
ہے یہ عالم تجھے بھلانے میں اشک آتے ہیں، اب مسکرانے میں
(نواب سراج الدولہ، فردوسی بیگم، خان عطاالرحمن)
ندیا بہتی جائے بہتی جائے وادی ہو یا پربت آئے
(تم میرے ہو، احمد رشدی/ مالا، موسیقار روبن گوش)
سوئے ندیا جاگے پانی، کیسی ہے یہ کہانی
(سوئے ندیا جاگے پانی، شہناز بیگم، موسیقار خان عطا الرحمن)
ملے اس طرح دل کی دُنیا جگا دی، خدا کی قسم تم نے ہلچل مچا دی
(قلی، مسعود رانا، موسیقار علی حسین)
نینوا چلائیں بان کس کو پہچانیں نا (انجمن، نورجہاں، موسیقار نثار بزمی)
گر اجازت ہو تو یہ شب مختصر ہونے نہ دوں (احمد رشدی، موسیقار نثار بزمی، فلم آشنا)
ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے (احساس، رونا لیلیٰ، روبن گھوش)
کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں
(آئینہ، مہدی حسن، روبن گھوش)
سماں وہ خواب سا سماں ملے تھے ہم دونوں جہاں (نہیں ابھی نہیں، اخلاق احمد، روبن گھوش)
دُنیا سوئی سوئی جاگے کوئی کوئی (کرن اور کلی، نیرہ نور، روبن گھوش، ریلیز 1981ء)

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل