Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

اپریل فول۔۔ تاریخ کے آئینے میں

ایک روایت کے مطابق مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کی یادگار کے طور منایا جانے والا دن
محمد علی سوزؔ 

دنیائے عالم میں تمام قومیں اپنی فتح و کامرانی کا جشن اپنے مخصوص دنوں میں بڑے ہی جوش و خروش سے مناتی ہیں، اس دن الیکٹرانک میڈیا و پرنٹ میڈیا ان کارناموں کی تفصیل اپنی قوم کو فخریہ انداز میں بتاتا ہے اور پورے ملک میں ایک جشن کا سماں بپا ہوتا ہے مگر یہی اقوام اپنی شکست خوردہ حیثیت کو دہرانا معیوب سمجھتی ہیں لیکن دنیا میں ایک ایسی قوم بھی ہے جو اپنے حریف کی فتح کا جشن اُنہی کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے بڑے ہی اہتمام سے مناتی ہے گو کہ یہ دن منانا انہیں کسی بھی طرح زیب نہیں دیتا کہ یہ اُن کی اپنی ہی شکست کا جشن ہے اور وہ قوم مسلمان ہے جو یورپ کی اندھی تقلید میں عیسائیوں کے شانہ بشانہ یکم اپریل کو ’’اپریل فول‘‘ جیسی قبیح رسم مناتی ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ شمالی افریقہ کے مغربی ساحل پر ڈاکوؤں کا ایک جہاز آکر رُکتا ہے جس میں 50 کے قریب بحری ڈاکو ہوتے ہیں، ان سب کے چہرے وحشت ناک اور ڈراؤنے تھے۔ سردار نے ایک آنکھ پر چمڑے کی پٹّی باندھ رکھی تھی کیو نکہ اُس کی ایک آنکھ پھوٹ چکی تھی۔ اُن کا مقصد اس علاقے کے غریب بربروں کو قیدی بنانا تھا کیو نکہ بربر قوم انتہائی طاقتور شمار کی جاتی تھی، وہ ان غلاموں کو امیرِ شہر کے ہاتھوں منہ مانگی قیمت پر بیچنا چاہتے تھے۔ بحری قزاق نے رات کے اندھیرے میں اچانک حملہ کردیا اور بہت سے بربروں کو غلام بنا کر لے گیا جن میں ایک بربر عیسائی نوجوان طارق بن زیاد بھی شامل تھا، تلوار بازی میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا، مزاحمت کے باوجود وہ بحری قزاقوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا، وہ ایک مضبوط جسم کا طاقتور نوجوان تھا،بصرہ کے ساحل پر پہلے ہی ایک یہودی ایجنٹ اپنے محافظوں کے ہمراہ موجود تھا جس نے تمام بربر غلاموں کو خرید لیا۔ طارق بن زیاد کی قیمت 1000 درہم ادا کی۔ دوسرے دن وہ ایجنٹ طارق بن زیاد کو حاکمِ بصرہ موسیٰ بن نصیر کے پاس لے گیا اور منہ مانگی قیمت وصول کی۔ موسیٰ بن نصیر نے اپنے محافظوں کے دستے میں طارق بن زیاد کو شامل کرلیا۔ موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد کے کارناموں سے متاثر ہوا اور اُسے 10,000 لشکر کا سردار بنا دیا اور دل میں یہ خواہش کی کہ کاش یہ نوجوان مسلمان ہوجائے۔ اِدھر طارق بن زیاد کا دل بھی مسلمانوں کے رہن سہن، عادات و اخلاق کا مطالعہ کرنے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہوگیا تھا اور اُس نے موسیٰ بن نصیر کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ یوں تو طارق بن زیاد نے کئی لڑائیاں لڑیں مگر سب سے زیادہ شہرت فتح اُندلس (اسپین) سے حاصل کی۔ اندلس پر اِن دنوں شاہ راڈرک کی حکومت تھی وہ ایک انتہائی ظالم و جابر بادشاہ تھا، رعایا اس سے پریشان تھی، بادشاہ کا ایک سردار کاؤنٹ جولین تھا جس کی ایک بیٹی روتھ انتہائی رحم دل تھی، جب بادشاہ کے مظالم حد سے تجاوز کرنے لگے تو کاؤنٹ جولین کو یقین ہوگیا کہ اب یہاں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں رہے گی تو اس نے اندلس چھوڑ کر شمالی افریقہ جانے کا ارادہ کیا جس کے لئے اُس کے دوست فریڈرک نے بہت مدد کی اور ایک قابلِ اعتماد ملاح کے ذریعے کاؤنٹ جولین کو شمالی افریقہ پہنچوا دیا۔ کاؤنٹ جولین نے اپنی بیٹی روتھ کے ساتھ شمالی افریقہ پہنچ کر طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر سے ملاقات کی اور اندلس پر حملہ کر کے معصوم رعایا کو نجات دلانے کی درخواست کی۔ موسیٰ بن نصیر نے امیرِ طنجہ طارق بن زیاد کو مخاطب کر کے کہا: ’’طارق معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی مرضی بھی یہی ہے کہ اندلس (اسپین) پر اسلامی پرچم بلند ہو۔‘‘ امیرِ بصرہ نے کاؤنٹ جولین کو دارالخلافہ کی ایک حویلی میں مہمان ٹھہرایا، طارق بن زیاد نے اندلس کے دارالحکومت غرناطہ میں اپنے نائب اطریف بن مالک کو مکمل جائزہ لینے کے لئے بھیجا جوکہ کاؤنٹ جولین کے دوست فریڈرک کے یہاں ٹھہرا رہا، ادھر موسیٰ بن نصیر نے خلیفہ ولید بن عبدالملک کو خط لکھ کر حملے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر حملے کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ یہ لشکر موسیٰ بن نصیر کے حکم پر طارق بن زیاد کی سپہ سالاری میں روانہ ہوا جس میں چار جہازوں پر 7,000 کا لشکر تھا۔ اسپین کے ساحل پر اُتر کر طارق بن زیاد نے تمام کشتیاں جلانے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ 5 رجب 92 ہجری بمطابق 711ء کو پیش آیا۔ کشتیوں کو جلانے کا مقصد یہ تھا کہ ممکن ہے کہ بربری نومسلم اور عرب باشندوں کو گھر کی یاد ستانے لگے اور ماتحت افسر اس بات پر زور دینے لگیں کہ جب بڑی فوج آئے تب حملے کا آغاز کیا جائے اور بہتر یہی ہے کہ واپسی کا ارادہ کرلیا جائے۔ مگر طارق بن زیاد واپس جانے کے لئے نہیں آیا تھا وہ تو نبیؐ کی بشارت کو جو دورانِ سفر خواب کی صورت میں دی گئی تھیں پوری کرنے آیا تھا کہ ’’طارق! اندلس تمہارے ہاتھوں فتح ہوگا۔‘‘ کشتیاں جل رہی تھیں، شعلے بلند ہورہے تھے اور دھواں آسمان پر اُٹھ رہے تھے مگر اُس کے لبوں پر وہی مُسکراہٹ تھی جو فاتح کے لبوں پر ہوتی ہے۔ طارق بن زیاد کے لب ہلے ’’ساتھیو! اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے، ہمارے آگے دشمن کا ملک اور پیچھے سمندر ہے، بہتر یہی ہے کہ ہم دشمن کو پیچھے دھکیلتے جائیں اور ان کے ملک پر قبضہ کرلیں، انشاء اللہ فتح ہماری ہوگی۔‘‘ اسی ہمّت و شجاعت کو شاعر افتخار عارف نے اِن الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی
طارق بن زیاد کا پہلا پڑاؤ جس پہاڑی پر ہوا اُسے آج ’’جبل الطارق‘‘ (جبرالٹر) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، اس لشکر کی آمد و تیاریوں کی اطلاع اسپینی گورنر تھیو ڈومر کو ہوئی، اس نے مقابلے کے لئے پیش قدمی کی مگر پسپا ہوکر پیچھے ہٹ گیا پھر اپنے بادشاہ راڈرک کو اطلاع دی جو شمالی اسپین میں باغیوں سے جنگ کررہا تھا۔ اسے یہ اطلا ع پہنچائی کہ ہماری زمین پر ایک ایسی قوم اُتر آئی ہے جو ہم نہیں جانتے کہ آسمان سے نازل ہوئی ہے یا زمین سے سے نکل پڑی ہے۔ راڈرک نے مقابلے کے لئے 1,00,000 فوج تیار کی، طارق بن زیاد کو اس بات کا علم ہوا تو موسیٰ بن نصیر سے مزید 5,000 کی کمک منگوائی، اس طرح مسلمانوں کی تعداد 12,000 ہوگئی۔ دونوں فوجوں کا سامنا 27 رمضان المبارک 92 ہجری بمطابق 19 جولائی 711ء کی ایک یادگار صبح کو دریائے گواڈلیٹ کے کنارے سریش کے مقام پر ہوا۔ جنگ مسلسل سات دن تک ہوتی رہی بالآخر آٹھویں دن طارق بن زیاد نے اپنے نائب اطریف بن مالک کو کہا کہ ’’میں اس جنگ کو آخری دن میں بدلنا چاہتا ہوں۔‘‘ اور یوں آٹھویں دن راڈرک کو شکستِ فاش ہوئی اور وہ دریائے گواڈلیٹ میں ڈوب کر مرگیا۔ پھر اس کے بعد طارق بن زیاد آندھی اور طوفان کی طرح آگے بڑھتا چلا گیا اور ایک سال کے اندر اندر پورے جزیرہ نما اسپین پر قبضہ کرلیا اور اذان دی۔
مسلمانوں نے اسپین پر 800 سال حکومت کی جس کی وجہ مسلمانوں کی رواداری اور انصاف پر مبنی معاشرہ تھا، اسپین میں پہلی اسلامی حکومت قائم ہوتے ہی لوگوں نے جوق درجوق اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔ جس وقت اہلِ یورپ جہالت کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے، اُس وقت مسلمانوں نے اسپین کو بے پناہ ترقی دی اور علم و ہنر کی رہتی دنیا تک منور رہنے والے چراغ روشن کئے۔ قرطبہ، طلیطلہ، اشبیلہ اور غرناطہ وغیرہ میں ایسی جامعات قائم کیں جن میں دنیا بھر سے طلبہ علم کی تلاش میں آتے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر سے قابل اساتذہ بھی تدریس کے لئے مقرر تھے۔ ہر بڑے شہر میں لاتعداد کُتب خانے قائم کئے، الحکم ثانی کے دور میں اسپین ایک کُتب خانے میں تبدیل ہوچکا تھا جہاں پر دنیا بھر کی نادر و نایاب کُتب موجود تھیں۔ فنِ تعمیر میں بھی مسلمانوں کا کوئی ثانی نہیں تھا، قرطبہ میں پانچ لاکھ کی آبادی میں 700 مساجد اور 400 حمام موجود تھے۔ فنِ تعمیر کا سب سے بڑا شاہکار مسجد قرطبہ ہے جسے عبدالرحمان ثانی نے تعمیر کروایا تھا، بعد میں آنے والے ہر حکمران نے اس کی توسیع و آرائش کروائی۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اِسی مسجد سے متاثر ہو کر ایک معرکۃ الآرا نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ لکھی۔ یہ مسجد آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے روحانی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے مگر آہ! آج یہ خود ہی اذانوں سے محروم ہے، اس کا ایک حصّہ چرچ میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ مسلم حکمرانوں کے دور میں اسپین نے زبردست صنعتی ترقی کی۔ جس وقت اہلِ یورپ کو صحیح سے تن ڈھانپنا بھی نہیں آتا تھا، اس وقت اسپین کے مسلم پارچہ بانی میں سب سے آگے تھے۔ اسپین کے بندرگاہ پر اقوامِ عالم کے بحری جہاز ہر وقت کھڑے رہتے تھے گو کہ اسپین کا ہر شہر کسی نہ کسی صنعت کے لئے دنیا بھر میں مشہور تھا، غرض یہ کہ کون سا ایسا شعبہ تھا جس میں مسلمانوں نے اسپین کو بامِ عروج پر نہ پہنچایا ہو۔ طب ہو، زراعت ہو، جراحت ہو، تجارت ہو، تعلیم و تدریس ہو، غرض کہ ہر شعبے میں اسپین آگے تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے ترقی یافتہ اسپین کو زوال کیسے آگیا۔ کہ چند رجسٹرڈ خاندان کے علاوہ کوئی مسلمان نہیں۔ اِس کا جواب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اِس ارشاد میں ہے کہ ’’اگر تم اسلام کی دی ہوئی کسی عزت کے سوا کسی اور عزت کے متلاشی ہوگے تو اللہ تمہیں ذلیل و رُسوا کردے گا‘‘ یہی اسپین کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ کچھ عرصے تک تو نظامِ حکومت اسلام کے مطابق چلتا رہا مگر بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسلامی تعلیمات کو بھلا دیا اور ذاتی حکمرانی کے زعم میں آگئے، دولت کے انبار جمع کرنے لگے، رواداری اور انصاف سے منہ موڑنے لگے اور مسلمانوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے لگے۔ سیدھی راہ دکھانے والوں کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا جس کو جہاں موقع ملا وہ وہاں کا حکمران بن بیٹھا، اتحاد بین المسلمین کا شیرازہ بکھر گیا اور وہ آپس کی لڑائیوں میں عیسائیوں کی مدد لینے لگے۔ اس دوران عیسائیوں نے ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے روایتی فارمولے پر عمل کیا۔ اس طرح ایک ایک ریاست مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتی گئیں، مسلمان ایک ایک ریاست کو عیسائیوں کے قبضے میں جاتا دیکھتے رہے مگر اس کے باوجود متّحد نہ ہوسکے۔ مسلمانوں کا آخری مورچہ غرناطہ 2 جنوری 1492ء کو ایک معاہدے کے تحت عیسائیوں کے حوالے کردیا گیا۔ غرناطہ کے آخری مسلمان حکمران کا نام ابوعبداللہ تھا جس نے الحمراء محل کی چابیاں بادشاہ فرڈی نینڈ کے سُپرد کیں۔
اگرچہ حلف نامے میں مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی مگر عیسائیوں نے اِس عہد کی پاسداری نہ کی اور مسلمانوں پر وہ ظلم ڈھائے گئے جس کی نظیر ملنا محال ہے۔ مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنایا گیا، انکار کرنے پر بغاوت کا الزام لگا کر زندہ جلا دیا گیا، بہت سے مسلمان بچوں اور عورتوں نے پہاڑوں پر پناہ لی مگر انہیں وہاں سے بھی ڈھونڈ کر قتل کردیا گیا۔ بلآخر مراکش کی جانب مسلمانانِِ اسپین ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور پورا اسپین مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔ کیتھولک عیسائی آج بھی اپنی اس ’’فتح‘‘ کی یاد میں جلوس نکالتے ہیں۔ جب مسلمان پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے تو جنونی کیتھولک عیسائیوں نے مسلمانوں کے ایک گروپ کو یہ دعوت دی کہ وہ اُنہیں اپنے جہاز پر مراکش تک چھوڑ آئیں گے، سادہ لوح مسلمان اُن کی باتوں کا اعتبار کر بیٹھے، جنونی کیتھولک عیسائیوں نے مسلمانوں کو جہاز میں بٹھا کر جہاز بحرۂ روم میں غرق کردیا، وہ تاریخ یکم اپریل تھی جس میں عیسائیوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دے کر اُنہیں موت کے حوالے کردیا لہٰذا اس کے بعد سے مغربی دنیا میں اِس تاریخ کو منانے کا رواج پا گیا جسے ’’اپریل فول‘‘ کا نام دیا گیا، مگر حیف ہے اِن مسلمانوں پر جو مغرب کی اندھی تقلید میں جانتے ہوئے یا نہ جانتے ہوئے اپنی ہی شکست کا جشن مناتے ہیں اور اِس دن بڑے سے بڑا جھوٹ بول کر کسی کو پریشان کرنا روا سمجھا جاتا ہے جوکہ قابلِ افسوس بھی ہے اور قابلِ مذمُت بھی۔ اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل