Thursday, July 17, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چابہار کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں کیوں؟

ریاض چوہدری

ایرانی صدر حسن روحانی نے دورہ بھارت کے دوران وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات میں 9 معاہدوں کو حتمی شکل دی جن میں سب سے اہم معاہدہ چابہار بندرگاہ کے بارے میں ہے جو بھارت کی مدد سے تعمیر کیا جا رہا ہے اور یہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے صرف 90 کلومیٹر دور ہے۔
بھارتی تعاون سے اس بندرگاہ کی توسیع کے بعد صدر روحانی نے گوادر کا نام لئے بغیر واضح کیا کہ چا بہار سے کسی مسابقتی عمل کا شروع ہونا غیر اہم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مثبت مقابلے بازی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس توسیع سے گوادر بندرگاہ کی اہمیت و حیثیت کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہوگا۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ اس توسیع سے چین کی مدد سے پاکستان کی زیرتعمیر گوادر بندرگاہ کی اہمیت کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہوگا۔ چا بہار کی بندرگاہ بحیرہ عرب میں واقع ہونے کے علاوہ انتہائی اسٹرٹیجک نوعیت کی خلیج عمان کے دہانے پر بھی ہے۔ ایران کی بحر ہند تک رسائی کا ذریعہ بھی یہی بندرگاہ ہے۔
بھارت اور ایران کے مابین 2003ء میں چابہار کے مقام پر ایک بندرگاہ بنانے پر اتفاق ہوا تھا۔ بھارت نے ایران کو ناکارہ اور دور افتادہ بندرگاہ کو ڈیویلپ کرنے کی راہ پر لگایا۔ چابہار بندرگاہ میں بھارت کی دلچسپی کی کئی وجوہات ہیں، وہ اس راستے سے پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان پہنچ سکتا ہے۔ دوسرا وہ گوادر بندرگاہ کی اہمیت کم کرنا چاہتا ہے، اس مقصد کے لئے وہ چابہار سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کا بھی پروگرام رکھتا ہے۔ چابہار کو سڑکوں اور ریل کے ذریعے افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں سے ملانا بھی بھارت کے پروگرام میں شامل ہے۔ اس بھاری سرمایہ کاری کا بڑا مقصد تو گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھارت کو ایران اور افغانستان کے قدرتی اور معدنی وسائل کے استعمال کے مواقع بھی حاصل ہوجائیں گے۔
اقتصادی اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر چابہار بندرگاہ نہ صرف ایران بلکہ بھارت اور افغانستان کے لئے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ بھارت کے لئے ایران، افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی تجارتی منڈیوں تک رسائی میں جغرافیائی اعتبار سے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ان علاقوں تک تمام زمینی راستے پاکستان ہی سے ہو کر گزرتے ہیں۔ بھارت نے اسی وجہ سے اپنی ملکی سرحد سے 900 کلومیٹر کی دوری پر واقع چابہار میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے، کیونکہ یہ بندرگاہ بھارت کا ان منڈیوں تک رسائی کا یہ دیرینہ مسئلہ حل کر دیتی ہے۔
چین نے ’’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘‘ نامی ایک منصوبے کے تحت گوادر میں 54 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ منصوبہ چین کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ نامی ایک بڑے پروجیکٹ کا حصہ ہے اور یہ بندرگاہ بیجنگ کے لئے بحرہند کے ذریعے عالمی منڈیوں تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ ہوگی۔ اب تک چینی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے چینی بحری جہازوں کو بحرہند کا طویل راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں چین گوادر کو مستقبل میں ایک ممکنہ فوجی اڈے کے طور پر بھی دیکھ رہا ہے۔ اسی وجہ سے بھارت پاکستان اور چین میں بڑھتے ہوئے تعاون کو اپنے لئے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔
بھارت عالمی اقتصادی منڈیوں میں چین سے مقابلے کا خواہاں ہے اور چابہار میں بھارتی سرمایہ کاری کا یہ بھی ایک اہم پہلو ہے۔ تاہم بھارتی کوششوں کے مقابلے میں چین ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ جیسے اپنے منصوبے تیزی سے مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب ایران بھی اس امر کی مسلسل یقین دہانی کرا رہا ہے کہ چابہار بندرگاہ ایک مثبت مسابقت کا ماحول پیدا کرے گی۔ ایرانی صدر نے بھی اپنے خطاب میں واضح انداز میں اس بات پر زور دیا کہ یہ بندرگاہ خطے میں اتحاد کا سبب بنے گی لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ چابہار پورٹ مکمل ہونے کے بعد کیا واقعی خطے میں بھارتی اثرورسوخ میں ویسے ہی اضافہ ہوگا جیسے کہ اب تک توقع کی جا رہی ہے۔
چابہار توسیعی منصوبے کی تکمیل کے بعد اب گوادر کو بین الاقوامی شپنگ معاملات میں سخت مسابقت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ ایرانی سرحد سے محض 90 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ ایرانی حکومت کا اگلا پلان یہ ہے کہ اس بندرگاہ کو ریل نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اس طرح وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اس بندرگاہ سے استفادہ کرسکیں گی۔ بھارت بھی اسی بندرگاہ سے وسطی ایشیائی مارکیٹوں تک رسائی کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک ایک طرف چین کی جانب جائے گا تو دوسری جانب روس کے راستے شمالی یورپ تک پہنچے گا۔
بھارت پاکستان کے خلاف اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے، بھارت کو پاکستان فوبیا ہوگیا ہے، بھارت کو چین فوبیا ہوگیا ہے، بھارت ہر مقابلے میں چین پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت کو ایرانی بندرگاہ دور پڑتی ہے جبکہ تھائی لینڈکی بندرگاہ سمیت کئی بندرگاہیں اسے نزدیک پڑتی ہے۔ لیکن پھر بھی بھارت یہاں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ چین نے اپنی توانائی کی ضروریات کو یقینی بنانے کے لئے بنائی ہے۔ یوں بھارت چابہار اور چین گوادر کے ذریعے افریقہ، لاطینی امریکہ اور افغانستان تک سے اقتصادی معاہدے کرنا چاہتا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے بھارتی حکام یہ کہتے چلے آ رہے کہ وہ چابہار کی بندرگاہ پر اضافی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ایرانی حکام پر زور دیتے رہتے ہیں تاکہ اس بندرگاہ کو تجارتی مرکز بنایا جا سکے۔ یہ بندرگارہ فعال تو ہے لیکن اس کی گنجائش 25 لاکھ ٹن سالانہ ہے جبکہ اس کے لئے ایک کروڑ 20 لاکھ ٹن سالانہ کا ہدف رکھا گیا ہے۔ بھارت امریکی دباؤ کے باوجود اس ایرانی بندرگار کا فروغ چاہتا ہے، جس کی وجہ چین کی جانب سے پاکستانی صوبہ بلوچستان میں بنائی گئی گوادر کی بندرگاہ ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے چابہار کی بندرگاہ گوادر سے محض سو میل کی دوری پر واقع ہے۔ بھارت کی جانب سے اس میں دلچسپی لینے اور بھاری سرمایہ کاری کا واحد مقصد وہاں بیٹھ کر پاکستان میں شورش برپا کرنا اور گوادر اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو نقصان پہنچانا ہے۔ اس کا کوئی دوسرا ہدف نہیں اور کسی ذہن میں اس بارے میں کوئی ایک فیصد شک بھی ہے تو اسے رفع ہوجانا چاہئے۔ ظاہراً یہ کہا جاتا ہے کہ اس بندرگاہ کی بدولت وسطی ایشیا کی سمندروں سے محروم ریاستوں تک بھارتی مصنوعات کی رسائی سہل ہوجائے گی اور اسی راستے سے بھارتی مصنوعات کی کم لاگت میں یورپ تک رسائی بھی ممکن ہوجائے گی۔
بنیا ذہنیت کا مفاد اور غرض کے بغیر کسی مسلم ملک کو ترقی دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بھارت نے برادر ہمسایہ ملک افغانستان کو پاکستان سے دور کرنے میں کافی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اب وہ دوسرے بھائی ایران اور پاکستان کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے میں بھی وہی ہتھکنڈے اور طور طریقے بروئے کار لا رہا ہے جو اس نے پاک افغان تعلقات میں دراڑیں پیدا کرنے کے لئے استعمال کئے تھے۔ بھارت اپنے مفادات کے لئے دوست ملکوں کی نیک نامی کو داؤ پر لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔ ایران سے دوستی کی آڑ میں چابہار میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک قائم کرلیا جس کا ایران کو بھی پتہ نہ چل سکا۔ یہاں سے بھارتی جاسوس کلبھوشن، بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتا رہا۔

مطلقہ خبریں