رابعہ خان
دنیا 1911ء سے خواتین کا عالمی دن منا رہی ہے اور خواتین کو ان کے حقوق دلانے کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کو ان کے حقوق دلانے کے لئے بہت سی عالمی تنظیمیں اور ادارے کام کر رہے ہیں۔ ایک سو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود خواتین کو ان کے پورے حقوق میسر نہیں ہوسکے۔ البتہ عورت کو زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی نمائندگی ضروری ہوگئی ہے۔ مثلاً ان خواتین کا جو گھروں کی چاردیواری سے لے کر ایوانِ اقتدار کی کرسیوں تک رسائی، سوئی سلائی، چولہا ہانڈی کرنے، بچوں کی نیپیاں بدلنے، کھیتوں میں کام کرنے، گائے، بھینسوں کو چارہ کھلانے، گوبر صاف کرنے، دودھ دہنے، چارہ کاٹنے، زمینوں میں کام کرنے، گندم، مونجی، مکئی، گنا کی فصل کاٹنے سے لے کر دکانوں میں سلیز گرلز کی نوکریاں، کال سینٹروں میں، کسٹمر سروسز سینٹر، دفاتر میں سیکریٹریز کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مردوں کا عالمی دن نہیں منایا جاتا تو پھر خواتین کا عالمی دن منانے کی کیا ضرورت ہے۔ شاید اس لئے کہ دُنیا خواتین کو ان کا حق بجاطور پر حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کررہی ہے یا پھر شاید مردوں کے اس معاشرے سے تسلیم کروانے کے لئے کہ ہاں ہم صنفی امتیاز برتتے ہیں۔
خواتین اس وقت ہر شعبہ میں مردوں کے ساتھ کام کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ اب دُنیا میں کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں خواتین اپنا کردار ادا نہ کر رہی ہوں، مگر پھر بھی خواتین کو ان کے حقوق نہیں مل رہے اور کو ان کا پورا حق میسر نہیں۔ اگر خواتین کو معاشرہ میں ان کا مقام اور ان کے حقوق میسر نہیں ہونے تو پھر یہ دن منانے کا کیا فائدہ۔۔؟ فائدہ تو تب ہو کہ خواتین کو ان کے پورے حقوق مل سکیں۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ محنتی اور لگن سے کام کرنے والی ہیں۔
خواتین مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ دُنیا میں بہت سے ممالک ہیں جہاں خواتین سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ کام کروایا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی ان کا پورا حق ان کو نہیں ملتا۔ جہاں مردوں کو زیادہ اجرت ملتی ہے اسی جگہ عورت کو کام کی اجرت مرد کے مقابلے میں کم دی جاتی ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے۔۔؟
یہی وجہ ہے کہ خواتین اپنی راہیں متعین کرنے کے بجائے مردوں کے ساتھ اس دوڑ میں جا کھڑی ہوئی ہیں جہاں وہ بہت زیادہ محنت کرنے اور قربانیاں دینے کے باوجود جیت ان کا مقدر نہ بن سکی۔ برابری کے حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں نسوانیت کا جوہر بھی کہیں کھو گیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی، ترقی پذیر کی کوشش اور غیرترقی یافتہ تنزلی کوئی بھی خواتین کو ان کاحق نہ دلا سکی۔
معاشرہ کوئی بھی ہو اور وہ کتنی ہی باشعور اور تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو آج بھی ایک کمزور، مجبور، محروم اور ڈری سہمی عورت ہے۔ وہ ہزار کوشش کر لے وہ مرد نہیں بن سکتی۔ کیونکہ وہ ایک عورت ہے اور عورت ہی رہے گی۔
اس کی تخلیق، مزاج، اس کے انداز اور اطوار بنائے ہی مختلف گئے ہیں۔ وہ کسی طور بھی ان صفات کی مالک نہیں بن سکتیں جو مرد کو دی گئی ہیں۔ مگر ایک طرف تو عورت کو دُنیا کے خوبصورت ترین خطابات اور القابات سے نوازا گیا ہے تو دوسری طرف پھر بھی عورت معاشرہ میں محض مردوں کے ہاتھوں پسنے والی ایک مظلوم ہستی کی صورت میں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ بھی عورت کی مظلومیت کی داستانوں سے بھر پڑی ہے۔
ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ مگر کتنی خواتین کو پتہ ہے کہ اس عالمی دن کا مقصد کیا ہے۔ شاید دو فی صد کو بھی پتہ نہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم پورا سال ہی یوم انسانیت مناتے رہیں کہ اصل ضرورت تو انسانیت کو زندہ کرنے کی ہے۔ باقی سب باتیں تو بس باتیں ہی ہیں۔ بہر کیف عورت کو اپنی بقا کی جنگ خود ہی لڑنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں جو اس کے لئے جدوجہد کرے اور ان کو ان کا حق دلا سکے۔